یہ دل، کیسی تنگ و تاریک گلی میں قید ہو گیا ہے؟ جہاں ہر
دیوار پر بس ایک ہی چہرہ، ایک ہی خیال نقش ہے۔ جیسے پوری دنیا سمٹ کر صرف
ایک نام، ایک یاد، ایک لمحے میں ڈھل گئی ہو۔ جیسے ہر درد، ہر سوال، ہر آہٹ
کی جڑ وہی ہو۔ لیکن، کیا واقعی دنیا اتنی چھوٹی ہے؟ کیا زندگی کی وسعتوں
میں صرف ایک ہی جذبہ رکھا گیا ہے؟ کیا انسان کی روح میں محبت کے سوا کچھ
نہیں؟ کیا انسان کی زندگی میں تکلیف کے سوا کچھ نہیں؟
ایک وقت آتا ہے جب دل خود اپنے خول سے باہر جھانکنے کو ترستا ہے۔ جب محبت
کے دائرے میں چکر لگاتے لگاتے تھکن ہو جاتی ہے۔ جب انسان خود سے سوال کرتا
ہے کہ آخر کب تک؟ کب تک ایک ناتمام خواہش کو پال کر، باقی سب سچائیوں سے
منہ موڑتا رہے؟ کب تک کسی ایک چہرے کی غیرموجودگی میں خود کو مکمل سمجھنے
سے انکار کرتا رہے؟ کب تک یوں ہی ایک بے نام محبت کی عزیت اپنے اندر برداشت
کرتا رہے؟
دنیا کے دکھ بھی کچھ کم نہیں۔ کہیں کسی ماں کی گود خالی ہے، کہیں کسی باپ
کے ہاتھ خالی۔ کہیں بچے بھوکے سوتے ہیں، کہیں جوان لاشیں اُٹھتی ہیں۔ کہیں
آنکھیں برسوں سے کسی کا انتظار کر رہی ہیں، اور کہیں انتظار مر چکا ہے مگر
آنکھیں زندہ ہیں۔ کہیں گھر اجڑتے ہیں، کہیں دل۔ کہیں رزق کی فکر انسان کو
بےچین رکھتی ہے، کہیں عزت کا خوف۔ یہ کائنات دکھوں سے بھری ہوئی ہے، اور یہ
سچ ہے کہ ہر دکھ صرف عاشق کا دکھ نہیں ہوتا۔ اور پھر کچھ راحتیں بھی تو
ہیں، جنہیں شاید ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ کسی کی مدد کر کے ملنے والا
سکون، کسی بھوکے کو کھانا دے کر دل میں اُترنے والی ٹھنڈک، کسی یتیم کے سر
پر ہاتھ رکھ کر ملنے والی محبت، یہ سب راحتیں وہ تو نہیں جو وصل کے لمحے
میں ملتی ہیں، مگر یہ وہ سکون ہیں جو انسان کو اندر سے بھر دیتے ہیں۔
محبت اپنی جگہ عظیم سچ ہے۔ اُس کا درد، اُس کا کرب، اُس کی روشنی، اُس کا
اندھیرا، سب کچھ بےحد طاقتور ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی صرف محبت
نہیں ہے۔ زندگی ایک سفر ہے، جس میں درجنوں موڑ آتے ہیں۔ کچھ موڑوں پر محبت
چھوٹتی ہے، کچھ پر خواب ٹوٹتے ہیں، مگر کچھ موڑ ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں
انسان خود سے ملتا ہے۔ اپنی ذات کے سچ سے، اپنے وجود کے معنی سے۔ اپنی اُس
حقیقت سے جو اب تک اُس سے چھُپی رہی ہو۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم محبت کو اتنا بڑا بنا چکے ہیں کہ باقی ہر احساس اس
کے سائے میں دب گیا ہے۔ حالانکہ درد صرف عشق میں نہیں ہوتا، کسی اپنے کا
بچھڑ جانا، کسی خواب کا مر جانا، کسی امید کا گر جانا، یہ سب بھی کم تکلیف
دہ نہیں۔ لیکن ہمارا دل، شاید خود کو صرف ایک ہی درد میں قید رکھنا چاہتا
ہے، کیونکہ وہ درد اب پہچان بن چکا ہے۔ شاید دل کے نزدیک اس سے بڑا اور
کوءی درد ہی نہیں۔ وہ ایک کنویں کے مینڈک کی طرح ہو کر رہ جاتا ہے۔
لیکن اگر ہم چاہیں، تو ہم دل کو وہ وسعت دے سکتے ہیں، جو صرف کسی ایک انسان
کی طلب سے بڑھ کر ہو۔ ہم چاہیں تو خود کو اُس دائرے سے نکال سکتے ہیں جہاں
صرف محرومی اور تڑپ ہے۔ ہم چاہیں تو ان بےشمار چہروں، ان اَن گنت لمحوں، ان
بکھری ہوئی سانسوں کو محسوس کر سکتے ہیں، جو محبت کے سائے سے باہر بھی جینا
سکھاتے ہیں۔ ہاں، مانا کہ بہت مشکل ہے، کہنا آسان، مگر ہم کوشش تو کر سکتے
ہیں۔
یہ زندگی بہت بڑی ہے، اور اس میں محبت کے سوا بھی کئی رنگ ہیں، کئی آوازیں،
کئی راستے۔ اگر ہم تھوڑا سا دل کھولیں، تھوڑا سا نظر اٹھائیں، تو شاید ہمیں
احساس ہو کہ وہ راحتیں جنہیں ہم نے نظر انداز کیا، وہ بھی کسی لمس، کسی
قُرْب، کسی وصل سے کم نہیں۔ اور شاید تب جا کر، دل یہ مان لے کہ وہ جو بچھڑ
گیا، وہ اگر نہ بھی ملے تو زندگی پھر بھی مکمل ہو سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہی
ہے نا، دل مانتا نہیں۔ وہ جو ایک دفعہ کسی ایک لمحے، کسی ایک احساس، کسی
ایک آنکھ کی چمک سے بندھ جائے، وہ پھر خود کو آزاد نہیں کر پاتا۔ وہ چاہے
بھی تو ہر تصویر میں اُسی چہرے کی جھلک ڈھونڈتا ہے، ہر آواز میں اُسی لہجے
کی گونج سنتا ہے، ہر ہنسی میں اُسی بےنام خوشی کو تلاش کرتا ہے جو کبھی
اُسے اُس کی قربت میں محسوس ہوئی تھی۔
مگر وقت ایک دریا ہے، اور دریا میں ہاتھ ڈال کر گزرے لمحے واپس نہیں لائے
جا سکتے۔ پانی بہتا ہے، بہتا چلا جاتا ہے، اور ہم؟ ہم بس کنارے بیٹھے، ہاتھ
پھیلائے، یادوں کے بھیگے پتھر چنتے رہتے ہیں۔ دل کو بار بار سمجھانا پڑتا
ہے کہ وہ لمحہ، جو تیری آنکھوں میں اتر کر اب فقط آنسو بن گیا ہے، وہ حقیقت
نہیں رہا۔ وہ ایک خواب تھا، جو آنکھ کھلتے ہی بکھر گیا۔ اور خوابوں کا یہی
انجام ہوتا ہے۔ مگر کیا کریں خواب اپنے اختیار میں نہیں، مگر ٹوٹے خواب کی
کرچیوں کو چھُپانا بھی اپنی ہی ذمہداری ہے۔ دل ٹوٹ گیا، لیکن اس شکستہ دل
کے ساتھ، کچھ اور بھی ہے جو زندہ ہے۔ وہ حسّاس دل، جو ہر تکلیف پر لرزتا
ہے، جو کسی اجنبی کی پریشانی پر بےچین ہوتا ہے، جو کسی بھوکے کو دیکھ کر
پیٹ میں خلاء محسوس کرتا ہے، جو کسی اندھیرے میں روشنی کی آرزو کرتا ہے، وہ
دل، وہی دل، جو آج بوجھل ہے، وہی دل اس دنیا کو بہتر بنانے کی تمنا بھی
رکھتا ہے۔
شاید یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان پلٹ سکتا ہے۔ جہاں وہ اپنی تمام تر ٹوٹی
امیدوں، بکھری چاہتوں، اور اَدھورے جذبوں کو سمیٹ کر ایک نیا راستہ چُن
سکتا ہے۔ ایک ایسا راستہ جہاں کسی ایک شخص کی موجودگی زندگی کا پیمانہ نہ
ہو، بلکہ زندگی خود اپنی سانسوں، اپنی خدمت، اپنے درد اور اپنی روشنی کی
بنیاد پر قیمتی لگے۔ کیونکہ دل کا کام صرف محبت کرنا نہیں، درد کو سمجھنا
بھی ہے، راحت بانٹنا بھی ہے، اور دنیا کے زخموں کو چھونا بھی۔ اور جب انسان
اُس مقام پر پہنچ جائے جہاں وہ صرف پانے کی نہیں، دینے کی تڑپ میں جینے
لگے، تب وہ دل، وہی ٹوٹا ہوا دل، اصل میں سب سے مضبوط بن جاتا ہے۔
یہی وہ سفر ہے جو ایک تنگ گلی سے نکل کر وسیع میدانوں کی طرف جاتا ہے۔ یہی
وہ لمحہ ہے جہاں ہم سیکھتے ہیں، کہ ہم زندہ ہیں، اور محبت کے سوا بھی، بہت
کچھ ہے، جینے کے قابل۔ اور بعض راتیں، ہاں وہ راتیں جو سناٹے سے بھی زیادہ
خاموش ہوتی ہیں، جن میں دیواروں سے ٹیک لگائے آنکھیں چھت کو تکتے تکتے تھک
جاتی ہیں، اور پھر بھی نیند نہیں آتی، اُن راتوں میں سب سے زیادہ شدت سے یہ
بات چبھتی ہے کہ دل کے اندر جو خلا ہے، اُس کا کوئی مداوا نہیں۔ کوئی بات،
کوئی شخص، کوئی منظر اُسے بھر نہیں سکتا۔ جو چھِن گیا، وہ کسی اور روپ میں
واپس نہیں آتا، چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔ چاہے ہم خود کو کتنی بھی تسلیاں دے
لیں۔
لیکن ایک عجب بات بھی ہے، یہ خلا جتنا گہرا ہوتا ہے، انسان اتنا ہی دوسروں
کے درد کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ شاید اسی لیے اُن لوگوں کے چہرے سب سے زیادہ
پُرامن ہوتے ہیں جن کے دل سب سے زیادہ زخمی ہوتے ہیں۔ وہ مسکراتے ہیں،
ہنستے ہیں، دوسروں کے لیے جیتے ہیں، کیونکہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ اپنا
درد بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تو وہ خود کسی کا کندھا بن جاتے ہیں۔ یہ
سب کوئی دکھاوہ نہیں ہوتا، بس اندر کا سچ ہوتا ہے جو انہیں مجبور کرتا ہے
کہ وہ دنیا کے لیے وہ سکون بن جائیں جو وہ خود کبھی نہ پا سکے۔ وہ خاموشی
سے اپنی پوری زندگی دوسروں کو سکون پہنچانے کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ ایسے
کہ کوءی اُن کا درد کبھی نا جان سکے۔
اور یوں ایک اور احساس جنم لیتا ہے کہ شاید یہی جینے کا طریقہ ہے۔ کہ اپنی
محرومیوں کو روشنی میں بدل دو، اپنی تنہائیاں کسی کے حوصلے میں سمو دو،
اپنی خواہشات، اپنے درد، اپنی محبت کو دفن کر کے دوسروں کو زندہ کر دو،
اپنی خاموشی سے دوسروں کو آواز دے دو، اپنی پیاس سے کسی اور کے ہونٹ تر کر
دو۔ اور اس جُستجو میں، انسان اپنے درد کے ہونے کو ایک مقصد دینے لگتا ہے۔
لیکن یہ سب آسان نہیں۔ دل اب بھی اُس ایک لمحے کی تکرار کرتا ہے، اُس ایک
چہرے کو یاد کرتا ہے، اُس ایک خواب کو پکارتا ہے جو کبھی تعبیر نہ ہوا۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ بس سب بند ہو جائے، یہ شور، یہ تڑپ، یہ دنیا، سب
کچھ، لیکن پھر وہی دل، جو محبت میں سب سے زیادہ زخمی ہوا، وہی دل، کسی
بےنام امید کے سہارے دھڑکنے لگتا ہے۔
اور یہی شاید زندگی ہے، ایک مسلسل درد کے ساتھ زندہ رہنے کا فن۔ ایسا فن جو
صرف وہ سیکھتا ہے، جو کسی ایک شخص کو ٹوٹ کر چاہتا ہے، اور پھر چپ چاپ،
بغیر کچھ کہے، اُسے اپنے وجود سے رخصت بھی کر دیتا ہے۔ اور بس پھر دل کی اس
تنگ گلی کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیتا ہے۔
|