زندگی اکثر اُن لمحوں کا نام بن جاتی ہے جنہیں ہم ٹالنا
چاہتے ہیں، جو ہم پر گزر جاتے ہیں اور ہم صرف یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کاش یہ
وقت نہ آتا، یا جلدی گزر جاتا۔ ہم ایک ایسی دنیا کے عادی ہو چکے ہیں جہاں
خوشی کا مطلب صرف سکون، کامیابی، محبت، اور مسکراہٹوں کی موجودگی ہے۔ جہاں
دکھ، تکلیف، محرومی، اور تنہائی کو صرف برداشت کرنے کا نام دیا جاتا ہے،
قبول کرنے کا نہیں۔ لیکن وقت سکھاتا ہے کہ زندگی ہمیشہ دھوپ نہیں دیتی۔ بعض
موسم ایسے ہوتے ہیں جن میں روشنی نہیں اُترتی، بس بادل ہوتے ہیں، مسلسل
برستے آنسوؤں جیسے لمحے، اور وہ بھی بنا کسی پیشگی اطلاع کے۔ ہم انتظار
کرتے ہیں کہ سب کچھ رک جائے، سب صاف ہو جائے، آسمان نیلا ہو، دل ہلکا ہو،
اور ہم دوبارہ سانس لے سکیں۔ مگر کچھ موسم بہت دیر تک ٹھہر جاتے ہیں۔ اتنی
دیر تک کہ ہم تھک جاتے ہیں، اور وہ امید جو پہلے کسی خوش رنگ صبح سے بندھی
تھی، اب خود بوجھ بن جاتی ہے۔ تب ہمیں ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یا تو ہم
کونے میں بیٹھے، اپنے ہاتھوں میں سر چھپا کر ہر کڑکتی گرج اور ہر ٹپکتی
بوند سے ڈرتے رہیں، یا پھر ہم اپنی بھیگی پلکوں سے مسکرا کر ان لمحوں کو
جینے کا سلیقہ سیکھیں۔ ہر لمحہ چاہے کیسا بھی ہو، اُس میں سانس لینے کا حق
ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تو کیوں نہ ہم ان لمحوں کو ویسے جییں جیسے وہ
آخری ہوں؟ چاہے اندر سے دل رو رہا ہو، چاہے باہر ہر منظر اداسی کی تہہ میں
لپٹا ہو، مگر ہم خود کو کچھ سکھا سکتے ہیں، سجدے کی شدت، دعا کی گہرائی،
آنکھوں کی نمی میں چھپی روشنی۔
کبھی کبھی زندگی خود ہی امتحان لیتی ہے کہ کیا تم صرف خوشی کے وقت زندہ
رہنا جانتے ہو؟ یا غم کے سائے میں بھی جینا سیکھا ہے؟ کیا تم صرف ہنسنے کے
قابل ہو، یا روتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے مسکراہٹ بن سکتے ہو؟ کیا تم صرف
روشنی میں قدم رکھتے ہو، یا اندھیرے میں بھی اپنے اندر چراغ جلا سکتے ہو؟
ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ زندگی تب شروع ہو گی جب یہ دکھ ختم ہو گا، جب یہ
رکاوٹ دور ہو گی، جب یہ محرومی مکمل ہو گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی تو یہ
سب ہوتے ہوئے بھی رواں ہے، یہ سب ہوتے ہوئے بھی ہماری سانسیں چل رہی ہیں،
ہمارا دل دھڑک رہا ہے، ہمارے سامنے لمحے آ رہے ہیں جنہیں ہم چاہیں تو کسی
خواب میں بدل سکتے ہیں۔ اور شاید اصل ہنر یہی ہے۔ کہ جب سب بکھر جائے، تب
بھی خود کو جوڑنے کا حوصلہ رکھا جائے۔ جب دل شکستہ ہو، تب بھی مسکراہٹ کسی
کو دینے کی نیت رکھی جائے۔ جب امید مر جائے، تب بھی دعا زندہ رکھی جائے۔ یہ
وہ ہنر ہے جو کسی کتاب سے نہیں سیکھا جا سکتا، نہ کسی استاد سے، بلکہ صرف
وقت، درد اور اندر کی خاموشی سے مل کر یہ سبق دیتا ہے۔ اور پھر جب ہم اس سچ
کو جان لیتے ہیں، تب ہمیں موسم کی پرواہ نہیں رہتی۔ تب ہم جانتے ہیں کہ
بارش بھی ایک پیغام ہے، ایک طریقہ ہے قدرت کا ہمیں نرم کرنے کا، ہمیں ہمارے
اندر لے جانے کا۔ تب ہم بھیگنے لگتے ہیں، ہچکچائے بغیر، کہ شاید اب ہم نے
سیکھ لیا ہے، جینا، بس جینا، چاہے موسم کیسا بھی ہو۔ اور پھر، وقت کا پہیہ
چلتا رہتا ہے۔ لمحے، دن، مہینے، سب ایک دوسرے کو روندتے آگے نکلتے جاتے
ہیں، اور ہم؟ ہم وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں، ایک ہی منظر میں قید، ایک ہی
کیفیت میں گم، ایک ہی درد کے ساتھ، جو وقت کے ساتھ پرانا نہیں ہوتا، صرف
اندر چھپ جاتا ہے۔ مگر کچھ ہوتا ہے جو بدلنے لگتا ہے، ہماری سوچ، ہماری
برداشت، ہماری نظر، ہم سیکھنے لگتے ہیں کہ یہ جو کرب ہے، یہ جو انتظار ہے،
یہ جو مسلسل دکھ ہے، یہی زندگی کا حصہ ہے۔
ہم جو کبھی ہر رکاوٹ کو رو کر، چیخ کر، یا بھاگ کر گزرنے کی کوشش کرتے تھے،
اب انہیں خاموشی سے دیکھتے ہیں۔ اب ہم جان گئے ہیں کہ ہر مشکل کو ہرانے کے
لیے ضروری نہیں کہ ہم زور سے لڑیں، کچھ جنگیں خاموشی سے جیتی جاتی ہیں، دل
کے اندر، روح کی گہرائی میں۔ بعض دکھوں کا حل یہ نہیں کہ وہ ختم ہو جائیں،
بلکہ یہ ہے کہ ہم اُن کے ساتھ جینا سیکھ لیں۔ پھر زندگی کا ایک نیا رنگ
دکھائی دیتا ہے۔ ہم اُس لمحے کو قیمتی ماننے لگتے ہیں جس میں سانس لیتے
ہیں، چاہے وہ کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ ہم ان بادلوں سے ڈرنا چھوڑ دیتے
ہیں جو ہر بارش سے پہلے آسمان کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ہم جان جاتے ہیں کہ ہر
رات کے بعد روشنی آئے یا نہ آئے، ہم خود اپنے دل میں ایک دیا جلا سکتے ہیں۔
کبھی کبھی یہ دیا بہت چھوٹا ہوتا ہے، بس ایک جھلک، ایک امید، ایک ہلکی سی
روشنی، لیکن وہی ہمیں آگے لے جاتی ہے۔ پھر وہ دن آتا ہے جب ہم خود سے کہہ
سکتے ہیں، ”میں بکھرا ضرور تھا، مگر ختم نہیں ہوا۔ میں نے ان آنکھوں سے وہ
کچھ دیکھا جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا، میں نے وہ سب سہا جو دوسروں کے
لیے صرف کہانی ہے، مگر میں اب بھی یہیں ہوں، سانس لیتا ہوا، قدموں پر کھڑا،
اور سب سے بڑھ کر، سیکھتا ہوا۔“
زندگی وہ نہیں جو ہم نے چاہی، زندگی وہ ہے جو ہمیں ملی، اور جو ہم نے اس کے
ساتھ کیا۔ اگر ہم نے دکھ میں بھی معنی تلاش کر لیے، اگر ہم نے درد میں بھی
روشنی ڈھونڈ لی، اگر ہم نے موسم کی سختی میں بھی مسکراہٹ کا لمحہ نکال لیا،
تو سمجھو، ہم نے زندگی کو واقعی جینا سیکھ لیا۔ پھر کچھ ایسا ہونے لگتا ہے
جو سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ دل توڑنے والے خواب بھی ایک دن عادت بن جاتے ہیں۔
جو باتیں کبھی روح کو زخمی کرتی تھیں، اب صرف ایک آہ بن کر لبوں سے نکلتی
ہیں اور ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ وہ چہرہ جسے دیکھنے کی تمنا میں پلکیں
بھیگ جاتی تھیں، اب آنکھیں بند کر کے یاد کرنا بھی بوجھ لگنے لگتا ہے۔ کچھ
ٹوٹ جاتا ہے انسان کے اندر، شاید امید، شاید خواب، یا شاید وہ شخص خود۔ اور
پھر بھی وہ جیتا ہے، مسکراتا ہے، لوگوں کے بیچ گھل مل جاتا ہے جیسے کچھ ہوا
ہی نہ ہو۔ مگر ہر رات، جب دنیا سو چکی ہوتی ہے اور تنہائی دل کے دروازے پر
دستک دیتی ہے، تب سچ سامنے آ جاتا ہے۔ کہ وہ دکھ، جو ہم نے سب سے چھپایا،
وہ اب بھی وہیں ہے، تازہ، زندہ، اور مکمل۔ اور ہم اُسے تھپکیاں دے کر
سُلانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے کوئی ماں اپنے روتے بچے کو گود میں لے کر چپ
کرا رہی ہو۔ لیکن یہاں ماں بھی ہم ہیں، بچہ بھی ہم، اور آنسو بھی ہمارے۔
پھر کبھی یونہی بارش ہو رہی ہوتی ہے، یا کوئی پرانا گیت کانوں میں رس
گھولتا ہے، یا کسی اجنبی کی بات میں وہی درد جھلکتا ہے جو ہمارا اپنا ہو،
تو اچانک دل کہہ اُٹھتا ہے: ”میں تھک گیا ہوں!“ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب
انسان مکمل طور پر خود سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ اب دوسروں سے
کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کوئی سمجھ نہیں پائے گا۔ اور شاید اب اُسے خود بھی
اپنے دکھ کی وضاحت دینے کی حاجت نہیں رہی۔ تب زندگی ایک نیا روپ اختیار
کرتی ہے، بےآواز، بےرنگ، مگر نہایت گہرا۔ ہر لمحہ بوجھ بنتا ہے، اور ہر
سانس ایک معرکہ۔ مگر اس سب کے باوجود، کچھ اندر سے ہمیں روکے رکھتا ہے،
شاید یہ احساس کہ اگر ہم ہار گئے، تو وہ سب جو ہم نے سہہ لیا، سب رائیگاں
جائے گا۔ تو ہم رینگتے ہیں، چلتے نہیں، گرتے ہیں، مگر پھر کسی نہ کسی قوت
سے اٹھتے بھی ہیں۔ ہم ہنستے نہیں، بس ہونٹوں کو اس طرح موڑ لیتے ہیں کہ
جیسے مسکرا رہے ہوں۔ اور ہم جیتے رہتے ہیں، کیونکہ ہمارے اندر کوئی ہے جو
کہتا ہے کہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
یہی تو زندگی ہے، نہ مکمل خوشی، نہ مکمل دکھ، بس ایک عجیب سا سفر جس میں
بارش کبھی تھمتی نہیں، اور ہمیں نیچے بھی نہیں بیٹھنے دیتی۔ ہمیں اُس بارش
میں رہ کر ہی اپنے قدموں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، اپنے دل کو سخت، اور اپنی
آنکھوں کو نم رکھنا ہوتا ہے، تاکہ وہ نمی کبھی ختم نہ ہو جو ہمیں انسان
بناتی ہے۔
|