شوکت خانم اسپتال: ایک ملاقات، ایک نیا سبق

میرے سامنے ایک ماں بیٹھی تھی، اور اس کی بیٹی، جو زندگی کے آخری لمحوں میں تھی، اس کے قریب پڑی تھی۔ ماں کا چہرہ، جو کبھی زندگی سے بھرپور تھا، آج غم کی گہری پرچھائی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں درد تھا، لیکن اس درد کے اندر ایک غیر معمولی طاقت تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو تسلی دے رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں وہ لمحے تھے جو وہ کبھی بھی واپس نہیں لا سکتی تھی۔

جب میں شوکت خانم اسپتال میں داخل ہوا، تو ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ یہ خاموشی درد کی تھی، یہ خاموشی امید کی تھی، اور یہ خاموشی اس حقیقت کی تھی کہ یہاں انسانیت کا امتحان ہو رہا تھا۔ یہ اسپتال صرف ایک علاج گاہ نہیں، بلکہ ایک ایسا مقام ہے جہاں انسانیت کی سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ یہاں زندگی اور موت کے بیچ ایک ایسی جنگ لڑی جا رہی تھی جس کا نتیجہ نہ ہمیشہ خوشی ہوتا ہے، نہ ہمیشہ غم۔

میرے سامنے ایک ماں بیٹھی تھی، اور اس کی بیٹی، جو زندگی کے آخری لمحوں میں تھی، اس کے قریب پڑی تھی۔ ماں کا چہرہ، جو کبھی زندگی سے بھرپور تھا، آج غم کی گہری پرچھائی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں درد تھا، لیکن اس درد کے اندر ایک غیر معمولی طاقت تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو تسلی دے رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں وہ لمحے تھے جو وہ کبھی بھی واپس نہیں لا سکتی تھی۔

میں ان کے قریب گیا اور اس ماں سے پوچھا: "آپ کیسے یہ سب برداشت کر رہی ہیں؟" اس کی آنکھوں میں چھپے دکھ نے میرے دل کو چھو لیا، اور پھر اس نے جو کہا وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ "میں اپنی بیٹی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتی، مگر میں اسے بتانا چاہتی ہوں کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ میں اس کے ساتھ ہوں، اور جب تک میں زندہ ہوں، وہ میری دعاؤں میں جیتا ہے۔" میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، کیونکہ اس ایک جملے میں ایک ایسی محبت تھی جو اس دنیا کے کسی خزانے سے زیادہ قیمتی تھی۔

میرے قدم آگے بڑھے اور میں نے ایک دوسرے مریض کو دیکھا جو اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس کی حالت بہت نازک تھی، لیکن اس کا چہرہ اس کے دکھ کو چھپانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا اور کہا: "میں نہیں چاہتا کہ میری بیوی میرے لئے روتی رہے، وہ میرے لئے سب کچھ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ہنستی رہے، چاہے میری زندگی کا یہ سفر ختم ہو جائے۔" اس کی باتوں میں اتنی محبت اور ہمت تھی کہ میں خود کو سنبھال نہ سکا۔ ایک شخص جو موت کے قریب تھا، وہ اپنی بیوی کے لئے مسکراہٹ کی دعا کر رہا تھا۔ یہ وہ لمحے تھے جنہیں بیان کرنا لفظوں سے مشکل تھا۔

پھر ایک کمرے میں، ایک بزرگ خاتون بیٹھی ہوئی تھی، اس کی آنکھوں میں موت کا خوف تھا، لیکن اس کی مسکراہٹ میں ایک ایسی طاقت تھی جو اس کی بیماری کو شکست دے رہی تھی۔ میں اس کے قریب گیا اور پوچھا: "آپ کو اتنی تکلیف کے باوجود مسکراہٹ کہاں سے ملتی ہے؟" وہ ہنس کر بولی: "زندگی میں کبھی بھی امید کا دامن نہ چھوڑو، جب تک انسان کا دل زندہ ہے، وہ لڑ سکتا ہے۔" اس کی یہ باتیں میرے دل میں گہرا اثر چھوڑ گئیں۔ ایک انسان جو اپنے جسم کی تکلیف برداشت کر رہا تھا، وہ روح کی طاقت سے جیت رہا تھا۔

شوکت خانم اسپتال میں یہ جو کچھ بھی تھا، وہ مجھے رونے کے لئے مجبور کر رہا تھا۔ یہاں کے مریض، ان کے اہل خانہ، ڈاکٹرز، اور نرسز، سب کا ایک ہی پیغام تھا: "ہم سب کی زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی، لیکن انسانیت کا جذبہ کبھی نہیں مرتا۔" یہاں، ہر مریض کی زندگی کی قیمت تھی، اور ہر زندگی میں ایک کہانی چھپی ہوئی تھی، ایک کہانی جو ہمیں سکھاتی تھی کہ زندگی کا اصل مقصد صرف خود کو بچانا نہیں، بلکہ دوسروں کی تکلیف کو کم کرنا ہے۔

یہ اسپتال ایک خواب کی طرح ہے، جہاں لوگوں کو نہ صرف علاج ملتا ہے، بلکہ یہاں کے لوگوں کے درمیان ایک عجیب سی محبت بھی محسوس ہوتی ہے۔ اسپتال میں داخل ہوتے ہی انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ جگہ صرف جسمانی علاج کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہاں دلوں کو جوڑا جا رہا ہے، امید کی کرنیں جلا رہی ہیں، اور درد کو کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

اور پھر میں نے یہ سمجھا کہ شوکت خانم اسپتال صرف ایک اسپتال نہیں، بلکہ ایک زندگی ہے، ایک روشنی ہے جو دکھوں کے بیچ امید کی کرن بن کر چمکتی ہے۔ یہاں ہر انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے — وہ مقصد ہے انسانیت کا خدمت کرنا، درد کو کم کرنا، اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا۔

آج، جب میں اس اسپتال کی سیڑھیاں چڑھ کر باہر نکلا، تو میرے دل میں ایک نیا سبق تھا — "زندگی میں دکھ ضرور ہیں، لیکن جب انسان کا دل مضبوط ہو، تو وہ کسی بھی دکھ کو جیت سکتا ہے۔"

اگر آپ بھی کبھی شوکت خانم اسپتال جائیں، تو وہاں کا ماحول آپ کو رونے پر مجبور کرے گا، کیونکہ وہاں انسانیت کی حقیقت اور محبت کا ایک نیا روپ نظر آئے گا۔ وہاں، جہاں موت کے قریب پہنچنے والوں کی تکالیف ہیں، وہیں امید کی ایک چمک بھی ہے، جو دکھوں کے اندھیروں میں روشنی بن کر چمکتی ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 54 Articles with 46015 views I am Student i-com part2.. View More