آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) ایک محدود آبادی (تقریباً
45 لاکھ) اور مختصر رقبے (تقریباً 13,300 مربع کلومیٹر) پر مشتمل علاقہ ہے۔
انتظامی بہتری کے لیے اسے 10 اضلاع میں تقسیم کیا گیا، مگر حکومت کی
کارکردگی ہر دور میں صفر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں سی ایم ایچ روڈ مظفرآباد
پر واقع الشفاء انٹرپرائزز کا ڈرگ سیل لائسنس منسوخ کیا جانا، درحقیقت صحت
کے شعبے میں پائی جانے والی سنگین بدعنوانی اور غیر ذمہ داری کی صرف ایک
مثال ہے۔
الشّفاء انٹرپرائزز پر جعلی یا غیر معیاری ادویات کی فروخت کا الزام ثابت
ہونے پر اس کا لائسنس منسوخ کیا گیا۔ اگرچہ یہ کارروائی خوش آئند ہے، مگر
یہ ایک گہرے نظامی فساد کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس میں مختلف سرکاری اہلکار،
دوائی فروش اور سرمایہ کار ملوث ہیں۔
مظفرآباد کے بڑے ہسپتالوں جیسا کہ عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (بورا
ہسپتال) اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال میں بدانتظامی عروج پر
ہے۔ عملہ غیر تربیت یافتہ، غیر ذمہ دار اور سیاسی سفارشات پر تعینات ہے۔
عوام کی شکایات کے مطابق، ڈاکٹر اکثر غیر حاضر، بدتمیز یا چھٹی پر ہوتے ہیں
جبکہ پیرامیڈیکل سٹاف ہی مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال، جو پہاڑی علاقے میں واقع ہے، اندرونی گروپ بندی، لابنگ
اور مستقل تعیناتیوں کا شکار ہے۔ کئی سالوں سے تعینات ڈاکٹرز نہ تبادلہ
چاہتے ہیں نہ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ہسپتال اور ہاسٹل کی عمارات پر بھی
ان ہی افراد کا غیر قانونی قبضہ ہے۔
سرکاری ملازمین کی کاروباری مداخلت
ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ متعدد سرکاری افسران براہِ راست یا
بالواسطہ ادویات کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ "گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز
1964" کے تحت کسی سرکاری ملازم کو کاروبار میں سرمایہ کاری یا شراکت کی
اجازت نہیں، مگر مظفرآباد میں یہ قاعدہ کھلے عام پامال ہو رہا ہے۔
یہ مفادات کا تصادم کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں سرکاری ملازمین جعلی
دوائی فروشوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس اور مقامی بیانات اس بات
کی تصدیق کرتے ہیں کہ جعلی دواؤں کا کاروبار ایک مافیا کی صورت اختیار کر
چکا ہے، جس میں حکومتی تحفظ حاصل ہے۔
جعلی ادویات: خاموش نسل کشی
گزشتہ 6 سے 7 سال سے جعلی ادویات کے حوالے سے شکایات سامنے آ رہی ہیں، مگر
ہر بار بااثر افراد نے معاملے کو دبایا۔ یہ ادویات غیر مؤثر یا نقصان دہ
ہوتی ہیں، اور بالآخر انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ اسے
دانستہ نسل کشی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
پاکستان کا "ڈرگ ایکٹ 1976" ایسی ادویات کی تیاری، فروخت اور ذخیرہ اندوزی
کو جرم قرار دیتا ہے۔ مگر آزاد کشمیر میں اس قانون کا نفاذ کمزور اور غیر
مؤثر ہے۔ ڈرگ انسپکٹرز، ہسپتال انتظامیہ اور محکمہ صحت اپنی ذمہ داریاں ادا
کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔اس سنگین مسئلے پر مکمل قانونی کارروائی ناگزیر
ہے۔ درج ذیل دفعات کا نفاذ ناگزیر ہے:
▪︎تعزیرات پاکستان 302/324: جعلی دواؤں سے ہلاکت یا نقصان پہنچانے پر
▪︎ڈرگ ایکٹ 1976 سیکشن 23: غیر رجسٹرڈ ادویات کی تیاری اور فروخت
▪︎پی ایم آر اے و پی پی آر اے قوانین: سرکاری اختیارات کا غلط استعمال
▪︎گورنمنٹ سرونٹس رولز 1964: مفادات کا تصادم اور بدعنوانی
مظفرآباد میں کئی سرکاری ملازمین اور افسران دواؤں کے کاروبار میں شریک
ہیں، جس سے غیر معیاری دواؤں کا کاروبار ایک محفوظ ٹیکس فری کاروبار بن چکا
ہے۔ ایسی سرگرمیاں سرکاری وقار، عوامی اعتماد اور انسانی صحت کے خلاف ہیں۔
الشّفاء ٹرسٹ محض ایک مثال، الشّفاء ٹرسٹ کی بندش ایک علامتی اقدام ضرور
ہے، مگر اس سے پہلے بھی کئی بار جعلی دوائیں سامنے آ چکی ہیں۔ اصل مجرم وہ
"بڑی مچھلیاں" ہیں، جو حکومتی عہدوں، سرمایہ کاروں اور بااثر سیاسی حلقوں
میں موجود ہیں۔ ان کے خلاف تحقیقات اور سخت سزائیں ناگزیر ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف سے عوامی اپیل:
آزاد کشمیر کی حکومت مسلسل عوامی خدمت میں ناکام رہی ہے۔ عوام کی جانب سے
چیف آف آرمی سٹاف سے خصوصی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے معاملات
میں اصلاحی اقدامات اور نگرانی کے لیے کردار ادا کریں تاکہ یہ علاقہ ترقی
کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ الشّفاء انٹرپرائزز کا لائسنس منسوخ ہونا محض
شروعات ہے۔ جب تک جعلی ادویات مافیا کی جڑیں نہ کاٹی جائیں، نظامِ صحت میں
شفافیت نہ آئے، اور ذمہ داروں کو سزا نہ ملے، تب تک عوام غیر محفوظ رہیں
گے۔ یہ وقت ہے کہ نمائشی کارروائیوں سے نکل کر نظامی اصلاحات، قانونی
احتساب اور حقیقی انصاف کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
|