کبھی تم نے دیکھا ہے کہ کوئی شخص خود کو بہت مہذب، بہت
سلجھا ہوا ظاہر کرتا ہے، مگر اس کی موجودگی میں ماحول میں ایک عجیب سا بگاڑ
پھیلنے لگتا ہے؟ وہ بظاہر اصلاح کے نعرے لگاتا ہے، مگر اندر سے وہ زہریلی
ہوا کی طرح ہر شے کو آلودہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی
چالاکی، ظاہری مسکراہٹ اور موقع پرستی کو حکمت سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے سچ
محض ایک کھیل ہوتا ہے، اور جھوٹ ایک فن۔
یہ دنیا ہمیشہ ایسے کرداروں سے بھری رہی ہے۔ وہ نہ تو واقعی کسی کی بہتری
چاہتے ہیں، نہ ہی کسی نظریے کے سچے ہوتے ہیں۔ وہ بس بہاؤ کے ساتھ بہتے ہیں،
چہروں کے پیچھے چہرے چھپاتے ہیں، اور ہر گروہ میں اپنی جگہ بنانا جانتے ہیں
— جیسے گرگٹ رنگ بدلتا ہے، ویسے ہی یہ لوگ عقیدے اور رویے بدلتے ہیں۔
ایسے لوگ جب کسی سچے انسان کو دیکھتے ہیں، تو اسے بے وقوف کہتے ہیں۔ ان کے
لیے خلوص ایک کمزوری ہے۔ وہ دل کی سچائی کو پاگل پن کہتے ہیں، اور خود کو
ہوشیار مانتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہی لوگ سب سے زیادہ کھوئے ہوئے ہوتے
ہیں۔ وہ نہ باہر کے ہوتے ہیں، نہ اندر کے۔ وہ محض ایک دھند میں بھٹکتے رہتے
ہیں — ان کے اندر روشنی نہیں ہوتی، صرف اندھیرے ہوتے ہیں۔
تصور کرو: ایک شخص نے آگ جلائی، روشنی ہوئی، سب کچھ دکھائی دینے لگا، مگر
پھر اچانک وہ روشنی چھن گئی، اور وہ دوبارہ تاریکی میں گم ہو گیا۔ یہی حال
اُن لوگوں کا ہوتا ہے جو کچھ دیر کے لیے سچائی کو محسوس کرتے ہیں، مگر پھر
اپنی ضد، انا، اور مفادات کی وجہ سے اُسے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اندھوں کی طرح
ٹکرا ٹکرا کر زندگی گزار دیتے ہیں — اور پھر آخر میں تنہائی ان کا مقدر بن
جاتی ہے۔
کبھی تم نے طوفانی رات دیکھی ہے؟ بجلی چمکتی ہے، ایک لمحے کے لیے منظر صاف
ہوتا ہے، پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ انسان اسی روشنی میں چند قدم چلتا ہے،
پھر رک جاتا ہے۔ یہی زندگی ہے اُن کے لیے جو اندر سے خالی ہیں۔ وہ کبھی دل
کی روشنی سے روشناس نہیں ہوئے، اس لیے وہ ہر چمک کو سچ سمجھ لیتے ہیں، ہر
آواز سے ڈر جاتے ہیں، اور ہر خاموشی سے بے چین ہو جاتے ہیں۔
انسان کی سب سے بڑی شکست یہ نہیں کہ وہ ہار جائے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے
اندر کا سچ بھول جائے۔ وہ آواز جو کبھی دل کے گوشے میں گونجتی تھی — "رُک
جا، یہ غلط ہے"، وہ آواز جب دب جاتی ہے، تو انسان ایک زندہ لاش بن جاتا ہے۔
پھر نہ وہ ہنسی اصلی ہوتی ہے، نہ آنکھ کا آنسو۔
یہ تحریر تمہیں جھنجھوڑنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ شاید تم ان میں سے ہو — یا
شاید تم نے ان جیسے لوگوں کو دیکھا ہو۔ مگر ایک سوال خود سے پوچھو: تمہیں
روشنی چاہیے، یا تم اندھیرے کے عادی ہو چکے ہو؟ کیونکہ ایک نہ ایک دن، وہ
طوفان پھر آئے گا… اور اس بار وہ تم سے تمہاری سماعت اور بصیرت دونوں چھین
سکتا ہے۔
|