زندگی کو ہم نے ہمیشہ کسی منزل کے انتظار میں گزار دیا۔
چھوٹے چھوٹے بچپن کے دنوں میں بڑوں کی طرح بننے کی خواہش، نوجوانی میں کسی
بڑی کامیابی کی امید، اور جوانی میں سکون کی تلاش، ہر موڑ پر ہمیں یہ محسوس
ہوا کہ شاید اگلا قدم، اگلا سال، یا اگلا مقام وہی ہو گا جہاں ہم مکمل ہو
جائیں گے۔ مگر وقت گزرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم نے منزل کی چاہ میں وہ
سب کچھ گنوا دیا جو اصل میں ”زندگی“ تھا۔ نہ ہی ہم مکمل ہوۓ، اور نہ ہی
زندگی ملی۔
ہم راستوں میں گزرنے والے ان لمحوں کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں جو شاید
کسی دن سب سے زیادہ یاد آئیں گے۔ وہ لمحے جب ہم تنہا تھے، مگر اپنے اندر
خود کو دریافت کر رہے تھے۔ جب ہم ناکام ہوئے، مگر دل میں کچھ سیکھنے کی
روشنی جلی۔ جب ہم روئے، مگر وہ آنسو ہمیں اندر سے نرم کر گئے۔ یہی راستے
تھے، جن میں زندگی کی اصل خوشبو چھپی ہوئی تھی۔ وہ خوشبو جو ہمیں آگے بڑھنے
کے بعد کہیں محسوس ہی نہیں ہوئی۔ ہم نے غموں کے ساے میں یہ بھُلا دیا کہ
زندگی صرف غم ہی نہیں، زندگی اور کچھ بھی ہے۔
ہم نے ہمیشہ خواب کے پورا ہونے کو اہم جانا، لیکن خواب کے پیچھے جو دوڑ
تھی، اُس کی قدر کبھی نہ کی۔ ہم نے کامیابی کے لمحے کو سجدے میں یاد رکھا،
لیکن اُس سجدے کی دعاؤں کو، اُن آنکھوں کی نمی کو، ہم نے کبھی مکمل اہمیت
نہ دی۔ حالانکہ وہی دعائیں، وہی نمی، وہی بےبسی، ہمیں انسان بناتی ہیں۔ وہی
عمل، جو کبھی مشکل لگتا تھا، بعد میں سب سے قیمتی بن جاتا ہے۔ وہی غم،
تکلیف، عزیت، یا صدمہ، جسے ہم پہاڑ سمجھتے تھے، وہی جینے کی اصل بن جاتا
ہے۔
کبھی کبھی ہم اپنی منزل پر پہنچ بھی جاتے ہیں، لیکن دل خالی رہتا ہے۔
کیونکہ ہم نے راستے میں جینے کا سلیقہ نہیں سیکھا ہوتا۔ ہم ہر بار سوچتے
ہیں کہ بس ایک قدم اور، بس ایک دن اور، بس ایک کامیابی اور، پھر ہم خوش ہوں
گے۔ لیکن خوشی کوئی پڑاؤ نہیں، خوشی تو وہ لمحہ ہے جب ہم کسی خاموش دوپہر
میں تنہا چائے پی رہے ہوتے ہیں، جب کسی دوست کی بےوجہ مسکراہٹ دل کو چھو
لیتی ہے، یا جب کوئی پرانی یاد آنکھوں میں نمی لے آئے اور ہم ہلکا محسوس
کریں۔
زندگی کا اصل حسن اُن لمحوں میں ہے جو کسی کیلنڈر میں درج نہیں ہوتے۔ وہ
بےترتیب، بےوجہ، بےخود لمحے، جن میں ہم کبھی ہنسے، کبھی روئے، کبھی رکے،
کبھی بکھرے، یہی اصل خزانے تھے۔ یہ راستے ہمیں تراشتے ہیں، سنوارتے ہیں،
کبھی توڑتے ہیں، اور کبھی جوڑتے ہیں۔ اگر ہم صرف منزل کو دیکھیں گے، تو یہ
سب کچھ چھوٹ جائے گا۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بہت جلدی بہت کچھ پا لیتے ہیں، مگر جب مڑ کر دیکھتے
ہیں، تو یادیں نہیں ملتیں، صرف واقعات کے ریکارڈ رہ جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ
ہوتے ہیں جو دیر سے پہنچتے ہیں، لیکن راستے میں جو کچھ سمیٹتے ہیں، وہی اُن
کی زندگی کا سرمایہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ اصل بات یہ نہیں کہ ہم کہاں پہنچے،
اصل بات یہ ہے کہ ہم کیسے پہنچے، اور ہم نے اُس سفر میں کیا پایا۔ اور ایک
دن ایسا آتا ہے جب ہم رُک کر سوچتے ہیں، کہ وہ سب جنہیں ہم نے "چھوٹے لمحے"
سمجھ کر نظر انداز کیا تھا، وہی سب سے بڑے تھے۔ وہی زندگی تھے۔ وہی ہم تھے۔
اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان خود سے سوال کرنے لگتا ہے: ”آخر
وہ لمحہ کب آئے گا؟ جس لمحے دل کہے گا کہ ہاں، یہ مکمل ہے؟“ لیکن پھر وہی
خاموشی جواب بن کر لوٹتی ہے، اور وہی راستہ سامنے رہتا ہے، نہ ختم ہوتا
ہوا، نہ رکتا ہوا، بس چلتا ہوا۔ اور تب انسان کو آہستہ آہستہ یہ ادراک ہونے
لگتا ہے کہ شاید زندگی کا حسن اسی نہ ختم ہونے والے سفر میں ہے، نہ کہ کسی
ایک نقطے پر پہنچنے میں۔
کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ساری زندگی اس آس میں گزار دیتے ہیں کہ جب
سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تب وہ جیئیں گے، تب وہ ہنسیں گے، تب وہ اپنے اندر
کے فنکار کو باہر نکالیں گے، تب وہ خود سے بات کریں گے، تب وہ اس دنیا سے
محبت کریں گے۔ لیکن زندگی ان سے چُپکے سے گزر جاتی ہے، اور وہ بس کسی ”کل“
کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ وہ کل جو کبھی آتا ہی نہیں۔
ہم سب کے اندر ایک سفر جاری ہے، ایک اندرونی دوڑ، ایک ایسی تلاش جو ہمیں
لمحہ بہ لمحہ گھیرے رکھتی ہے۔ اور اگر ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں، تو ہمیں
محسوس ہو گا کہ وہ سب کچھ جس کی ہم نے تمنا کی، وہ راہوں کے بیچ کہیں نہ
کہیں ہمیں چھوٹے چھوٹے اشاروں میں مل رہا ہوتا ہے۔ کبھی کسی بچے کی مسکراہٹ
میں، کبھی کسی پھول کی خاموش خوشبو میں، کبھی کسی پرانے گانے کی آواز میں،
اور کبھی اپنے ہی دل کی دھڑکن میں۔ لیکن ہم اُسے سمجھنے کے بجائے آگے بڑھنے
کی جلدی میں ہوتے ہیں۔
ہم اکثر راستے سے نہیں، منزل سے عشق کرتے ہیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ منزل
کے لمحے بس ایک پل ہوتے ہیں، اور راستے کا سلسلہ زندگی ہے۔ اگر ہم ہر قدم
کو محسوس کرنا سیکھ لیں، ہر سانس کو، ہر درد کو، ہر لمحے کو، تو شاید زندگی
کا رنگ ہی کچھ اور ہو جائے۔ شاید تب ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ جسے ہم نے
دشواری سمجھا، وہی اصل سبق تھا، جسے ہم نے درد کہا، وہی اصل تربیت تھی، جسے
ہم نے کھویا ہوا مانا، وہی ہمیں پانے کے قریب لے گیا۔ اور تب کہیں جا کر دل
خود سے کہتا ہے کہ ”شکریہ“، اُن سب لمحوں کا، جنہیں ہم نے جھیل کر سیکھا،
اُن سب راستوں کا، جنہوں نے ہمیں تھکایا ضرور، مگر کہیں نہ کہیں، کسی نہ
کسی رنگ میں، جینا سکھا دیا۔ اور جب دل سیکھ لیتا ہے ہر لمحے کی دھڑکن کو
محسوس کرنا، تو پھر وہ کسی ایک منزل کی خواہش میں نہیں جلتا، بلکہ ہر دن کی
روشنی میں جینا سیکھ جاتا ہے۔ وہ ہر صبح کو کسی خوشی کے وعدے کی طرح لیتا
ہے، چاہے وہ خوشی پوری نہ ہو، مگر اُس کی امید اسے مضبوط رکھتی ہے۔ پھر وہ
شخص جو پہلے بےچین رہتا تھا کہ کب کچھ بنے گا، کب کچھ بدلے گا، اب ہر لمحے
کو خود میں ڈھالنا سیکھ جاتا ہے۔ اُسے اپنی خوشی عزیز نہیں ہوتی، بلکہ اپنے
درد کو چھُپا کر دوسروں کے غم کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا سیکھ جاتا ہے۔ اور
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب زندگی خاموشی سے اُسے قبول کرتی ہے، اُسے سراہتی
ہے، اور اُسے اپنے رنگوں سے آشنا کرتی ہے۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہر منزل ایک نیا آغاز ہے۔ اور اگر ہم نے راستے
کی مٹھاس محسوس نہ کی، اُس کی تلخیوں کو چکھا نہیں، اُس کی گرد میں خود کو
نہیں گھمایا، تو وہ منزل بھی ہمیں ادھوری لگے گی۔ کیونکہ اصل خوشی، اصل
کامیابی، اصل ”ہم“، انہی راستوں میں دفن ہوتے ہیں۔ وہ قدم جو ہم نے ہمت کے
ساتھ اٹھایا، وہ راتیں جن میں ہم نے اپنی شکست کو تسلیم کر کے پھر صبح کی
امید پا لی، وہی اصل زندگی ہیں۔
راستے میں جو چہرے ملے، جو لمحے بکھرے، جو خواب ادھورے رہ گئے، وہ سب ہمیں
مکمل بناتے ہیں۔ اگر ہم نے صرف انجام پر نظریں رکھیں، تو ہمیں کبھی بھی وہ
چیز نہیں ملے گی جس کی ہم نے تمنا کی۔ لیکن اگر ہم نے ہر دن کو، ہر لمحے
کو، ہر گرتی ہوئی سانس کو ایک تحفے کی طرح اپنایا، تو تب ہم جان پائیں گے
کہ خوشی کسی ایک دن کی محتاج نہیں، بلکہ وہ تو ہر دن میں چھپی ہوئی ہے، بس
اسے دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔
تو بس، جیتے رہیے، سانس لیتے رہیے، چلتے رہیے، چاہے یہ آپ کے لیے کتنی ہی
دشوار اور عزیت ناک ہو، کیونکہ شاید زندگی کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ
وہ کبھی رُکتی نہیں، اور نہ ہمیں رُکنے دیتی ہے۔ اور اگر ہم نے سیکھ لیا کہ
کیسے ہر لمحہ جیا جائے، تو پھر منزلیں خود بخود ہمارے قدم چومنے لگتی ہیں۔
|