سائنس سے آگاہ معاشرہ

ایک بڑی آبادی کے حامل ملک اور تکنیکی اعتبار سے مضبوط قوت کے طور پر ،چین میں سائنسی خواندگی کو حالیہ عرصے میں مسلسل فروغ ملا ہے۔ جدت طرازی پر مبنی ترقی کی پیروی کرتے ہوئے ، چین نے مسلسل اپنی تکنیکی طاقت میں اضافہ کیا ہے ، اعلیٰ معیار کی ترقی میں سائنس دوست رویے اپنائے ہیں اور چینی جدیدکاری کے لئے ٹھوس مدد فراہم کی ہے۔

آج ، چین کی سولہ سے انہتر سال کے درمیان بالغ آبادی کا تقریباً 44 فیصد جو کہ 440 ملین افراد بنتے ہیں ، ملک کے بنیادی سائنسی خواندگی کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔یہ افراد اقتصادی اور تکنیکی ترقی کے لیے ایک نہایت اہم افرادی سرمایہ ہیں ،جن میں 15.37 فیصد افراد مکمل طور سائنسی خواندگی کے حامل ہیں جبکہ 2.30 فیصد کو بلند پایہ سائنسی خواندہ سمجھا جاتا ہے۔

چین کے اپ ڈیٹ شدہ سائنسی خواندگی کے فریم ورک کو 2021 میں متعارف کرایا گیا، جو لوگوں کو چار پیمانوں کے تحت 100 پوائنٹس کے پیمانے پر درجہ بند کرتا ہے۔ان میں علم (40 پوائنٹس)، طریقہ کار (20)، فکری سوچ (20) اور عملی اطلاق (20) ، شامل ہیں۔یہ نظام، جو 2022 سے قومی شماریاتی رپورٹ میں شامل ہے، پالیسی میں درست تبدیلیوں کی اجازت دیتا ہے۔سروے یہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ عملی اطلاق کی جانب ایک تبدیلی آئی ہے ۔لوگوں نے سائنسی استدلال کے استعمال (79/100) اور ثبوت پر مبنی سوچ (80/100) میں سب سے زیادہ اسکور کیا، جو جدید سائنسی اقدار کے ساتھ عوامی ہم آہنگی کی بڑھتی ہوئی علامت ہیں۔یہ کامیابیاں ملک کے 2035 کے علم پر مبنی معاشرے کے ہدف کی طرف پیش رفت کی نشاندہی کرتی ہیں۔

سائنسی طور پر خواندہ چینی شہریوں کا تناسب 2020 میں صرف 10.56 فیصد تھا، جس میں آج نمایاں پیش رفت ہوئی ۔یہ اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ چینی آبادی سائنسی طور پر مزید خواندہ ہوتی جا رہی ہے، زیادہ سے زیادہ لوگ سائنس کو سمجھنے اور زندگی اور کام سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنسی رویوں کے اطلاق کو وسعت دے رہےہیں۔

سائنسی خواندگی کے فروغ میں نمایاں کامیابیوں کے باوجود چینی حکام ملک کی شہری اور دیہی آبادی کے درمیان مساوی سائنسی خواندگی کے فروغ ، مرد و خواتین کی ڈیمو گرافکس اور معیاری تعلیم تک متوازن رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور انہیں بدستور بڑے چیلنجز شمار کرتے ہیں اور سائنسی خواندگی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں قرار دیتے ہیں جن کا دور کیا جانا ضروری ہے۔

اس سے قبل چین کی جانب سے عام لوگوں کی ڈیجیٹل خواندگی اور مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی ایک مہم کامیابی سے لانچ کی جا چکی جس میں فورمز، نمائشوں اور ڈیجیٹل مہارتوں اور تعلیم پر لیکچرز وغیرہ سے شہریوں کو تکنیکی آگاہی دی گئی اور ڈیجیٹل وسائل کی فراہمی کو بڑھانے اور ڈیجیٹل تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی گئی۔

دوسری جانب دنیا بھر میں اس بات کا ادراک بڑھ رہا ہے کہ عوامی سائنسی خواندگی طویل مدتی سماجی اور اقتصادی ترقی کا بنیادی جزو ہے۔ چین نے اس ضمن میں عوامی سائنسی خواندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں اور قانونی ڈھانچے کو بہتر کیا ہے۔ 2002 میں، ملک کی جانب سے سائنسی خواندگی کو فروغ دینے کے لیے مخصوص قوانین تشکیل دیے گئے۔ چار سال بعد، ریاستی کونسل نے ایک دستاویز جاری کی، جس کا مقصد 2020 تک ملک کی 10 فیصد آبادی کو سائنسی طور پر خواندہ بنانا اور سائنس کو قومی پالیسی کے طور پر مقبول بنانا شامل تھا۔ ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے کہ آج ملک میں پیشہ ورانہ اور سائنس کو مقبول بنانے والے جز وقتی کارکنوں کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ، چین بھر میں اعلیٰ معیاری سائنس اور ٹیکنالوجی عجائب گھر، موبائل سائنس اور ٹیکنالوجی عجائب گھر، سائنس کی مقبولیت کے کاروان اور دیہی سائنس کی مقبولیت کے مراکز کا جال بچھایا گیا ہے۔ یوں، چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سائنسی رویوں کو بھرپور انداز سے پروان چڑھایا اور ملک کی اقتصادی سماجی ترقی کی کوششوں میں سائنسی طور پر خواندہ افراد کی شمولیت کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ان کوششوں میں چین کے سائنس و ٹیکنالوجی جرائد نہ صرف ملکی سطح پر سائنسی سوچ کو فروغ دینے میں مددگار ہیں بلکہ عالمی سائنسی و تحقیقی نظام کو بھی چینی دانش اور چینی حل سے روشناس کروانے میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

چین اس وقت 2035 تک سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک مضبوط ملک کی تعمیر کے اسٹریٹجک ہدف کے لئے پرعزم ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر سائنس ٹیک کے نظام میں اصلاحات کو گہرا کر رہا ہے اور اعلیٰ سطح کی سائنس ٹیک خود انحصاری میں تیزی لا رہا ہے.
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1516 Articles with 795948 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More