تحریر: پروفیسر سید نصرت بخاری
ہمارے ہاں، یعنی پاکستان میں، امتحانی مراکز کا تصور ایک ایسے مقام کا بن
گیا ہے جہاں صاف ذہنوں اور روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے معصوم بچے
محض امتحان دینے نہیں، بلکہ ذہنی اذیت جھیلنے آتے ہیں۔ ان مراکز میں بورڈ
یا یونیورسٹی کی طرف سے بھیجے گئے انسپکٹرز کے چھاپے معمول کی بات سمجھے
جاتے ہیں، مگر درحقیقت یہ چھاپے بچوں کے لیے ایک اذیت ناک تجربہ ہوتے ہیں۔
جیسے ہی انسپکٹر سنٹر میں داخل ہوتا ہے، اس کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے وہ
کوئی فیلڈ مارشل ہو، اور ہر شخص اسے سلامی دینے کا پابند ہے۔ وہ ایسے انداز
میں طلبہ کی نگرانی کرتا ہے جیسے سب کے سب چور ہوں۔ نگران، سپرنٹنڈنٹ اور
معصوم طلبہ، سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بلاوجہ بچوں کو سیٹ سے اٹھا کر
تلاشی لی جاتی ہے، ان کے جوتے اور جرابیں تک اتروائی جاتی ہیں، جیسے یہ
کوئی دشمن ملک کے ایجنٹ ہوں۔
یہ تلاشی صرف ایک عمل نہیں، ایک تحقیر ہے۔ بچوں کی عزتِ نفس پامال ہوتی ہے۔
ایک ایسا بچہ جو دیانتداری سے امتحان دے رہا ہو، اس کے ساتھ یوں سلوک کرنا
کہ جیسے وہ نقال ہو، اس کے ذہن پر دیرپا منفی اثرات چھوڑتا ہے۔
انسپکٹروں کا انداز فاتحانہ اور متکبرانہ ہوتا ہے۔ وہ پورے ہال پر ایسے نظر
دوڑاتے ہیں جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو۔ کسی طالب علم سے پرچہ چھین
لینا، زور زور سے چیخنا، حتیٰ کہ بے گناہ پر بھی کیس بنا دینا—یہ سب کچھ
معمول سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک طالب علم کو محض شک کی بنیاد پر نااہل
قرار دے دیا جاتا ہے، اس کی زندگی کے قیمتی سال برباد ہو جاتے ہیں۔
یہ رویہ ایک نفسیاتی مرض—نرگسیت (Narcissism)—کی عکاسی کرتا ہے، جہاں فرد
اپنی طاقت کا مظاہرہ دوسروں کی تذلیل کے ذریعے کرتا ہے۔ ایسے انسپکٹروں کو
ماہر نفسیات سے گزارا جانا چاہیے اور ان کے تقرر سے قبل نفسیاتی جانچ ضروری
ہونی چاہیے۔
مجھے اپنا وقت یاد آتا ہے جب میں امتحان دے رہا تھا۔ نقل نہ ہونے کے باوجود
یہ چھاپہ مار مجھے خوف زدہ کر دیتے تھے۔ اگر کوئی مجھے تلاشی کے لیے کھڑا
کر دیتا تو میرے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ میں سوچتا کہ اگر میری جیب میں سے
کوئی ایسی چیز نکل آئی جسے انسپکٹر نقل سمجھ لے تو کیا ہو گا؟
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس شدت پسند رویے کا سامنا زیادہ تر اُن بچوں کو
کرنا پڑتا ہے جو سنجیدہ، محنتی اور خواب دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ جو صرف
اچھے نمبر لینا چاہتے ہیں، اپنے والدین کو کامیابی کی خبر دینا چاہتے ہیں۔
نقالی کرنے والا بچہ تو شاید پاس ہو جائے، لیکن وہ اعلیٰ نمبر نہیں لے
سکتا۔
چند سپرنٹنڈنٹ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ مخصوص بچوں کو
آگے بٹھا کر ان پر غیر ضروری سختی کرتے ہیں، حتیٰ کہ واش روم جانے کی اجازت
تک نہیں دیتے۔ آخر تین گھنٹے تک کوئی بچہ اپنی جسمانی ضروریات کو کیسے روک
سکتا ہے؟ صرف اس خدشے پر کہ وہ کچھ یاد کر کے نہ آ جائے؟ ایسی سختی انسانی
وقار کے منافی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دوسری طرف سرکاری ملازمتوں کا حال یہ ہے کہ غریب کا بچہ
پڑھ لکھ کر بھی مزدوری کرتا ہے، جب کہ طاقت ور طبقے کے بچے سفارش اور رشوت
کے بل بوتے پر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ عدالت میں ایک افسر سے جب
تعلیم پوچھی گئی تو اُس نے “پرائیویٹ بی اے” کو “بی ایس سی” کہا، اور یہ
جھوٹ پکڑا گیا۔
میری گزارش، مشورہ اور مطالبہ یہی ہے کہ امتحانی مراکز کو تفتیشی مراکز نہ
بنایا جائے۔ طلبہ و طالبات کو اتنا نہ ڈرایا جائے کہ وہ اسے ٹارچر سیل
سمجھنے لگیں۔ انھیں انسانی وقار کے ساتھ، سہولیات کے ساتھ، اور اپنے بچوں
کی طرح عزت کے ساتھ امتحان دینے دیا جائے۔
چھاپے مارنے ہیں تو ان جگہوں پر ماریں جہاں حقیقتاً جرم ہوتا ہے—جوا خانے،
چکلے، شراب خانے، منشیات فروشوں کے اڈے۔ وہاں کے دروازے سب کے لیے کھلے
ہیں، اور وہاں قانون اندھا بن کر سویا پڑا ہے۔ امتحانی سنٹرز پر چھاپے مار
کر قوم کے مستقبل کو مت روندیں۔
|