کامیابی ایک لمحے کا نام ہے، ایک کیفیت، ایک پڑاؤ، جو
وقتی سا ہوتا ہے۔ اور ناکامی؟ وہ بھی ایک لمحہ ہے، جسے اکثر لوگ انجام سمجھ
لیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ نہ کامیابی مکمل ہوتی ہے، نہ ناکامی حتمی۔
اصل چیز وہ حوصلہ ہے جو انسان کو ہر حالت میں زندہ رکھتا ہے، جو اُسے رو کر
بھی آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے، جو تھکن کے باوجود اُسے کہتا ہے کہ ”بس
ایک قدم اور۔“
زندگی کا اصل امتحان یہ نہیں کہ تم کتنی بار جیتے ہو یا ہارے ہو، بلکہ یہ
ہے کہ تم ہر بار جیت یا ہار کے بعد کیا کرتے ہو۔ اگر تم جیت کر رُک گئے،
خود کو مکمل مان لیا، تو دراصل تم وہیں ختم ہو گئے۔ اور اگر تم ہار کر بیٹھ
گئے، خود کو ناکام مان لیا، تو تم نے اپنی ہی سانسوں سے منہ موڑ لیا۔
کامیابی تمہیں اتنا نہیں سکھاتی جتنا ہار سکھاتی ہے۔ ہار تمہیں اندر سے
کاٹتی ہے، تمہارے غرور کو توڑتی ہے، تمہاری انا کو زمین پر گراتی ہے، اور
پھر تمہیں موقع دیتی ہے کہ تم دوبارہ اپنے آپ کو نئے سرے سے تعمیر کرو۔
اصل طاقت اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ہر طرف اندھیرا ہو اور تمہارے پاس کوئی
چراغ نہ ہو، پھر بھی تم ایک کونے میں بیٹھے اپنی ہتھیلی سے روشنی پیدا کرنے
کی کوشش کرتے ہو۔ یہ وہ حوصلہ ہے جسے دنیا نہیں دیکھتی، مگر وقت دیکھتا ہے۔
وقت اُسی کا ساتھ دیتا ہے جو گرتا ہے اور دوبارہ کھڑا ہوتا ہے۔ جو تھکتا
ہے، مگر چلنے سے انکار نہیں کرتا۔ جو رو پڑتا ہے، مگر رونے کے بعد آنکھیں
پونچھ کر کہتا ہے: ”اب دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔“
لوگ اکثر کامیابی کی روشنیوں میں کھو جاتے ہیں، اُنہیں لگتا ہے کہ اب بس
یہی سب کچھ ہے۔ مگر وقت انہیں جلد ہی یہ یاد دلا دیتا ہے کہ سفر ابھی ختم
نہیں ہوا۔ ہر کامیابی کے بعد ایک نئی آزمائش کھڑی ہوتی ہے، ہر بلندی کے بعد
ایک گہری کھائی ہو سکتی ہے۔ اگر تم میں یہ حوصلہ نہ ہو کہ تم ہر مرتبہ نئے
سرے سے جینا سیکھو، تو تم جیت کر بھی ہار جاؤ گے۔ اور جو لوگ ہار کے بعد
اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، وہی لوگ اصل فاتح ہوتے ہیں۔ وہی لوگ اپنے اندر ایک
ایسی روشنی پیدا کرتے ہیں جس سے نہ صرف اُن کی زندگی روشن ہوتی ہے، بلکہ
دوسروں کے لیے بھی اُمید کا چراغ بن جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جانتے
ہیں کہ ختم کچھ نہیں ہوتا، جب تک کہ انسان خود نہ مان لے کہ وہ ختم ہو چکا
ہے۔ ایسے لوگ زندگی کو کبھی انجام نہیں سمجھتے۔ وہ ہر دن کو نئے آغاز کی
طرح جیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کل کی کامیابی یا ناکامی آج کا معیار نہیں
ہو سکتی۔ آج کا دن اُن کے لیے ایک موقع ہے، ایک کوشش ہے، ایک جنگ ہے، جو
انہیں پھر سے ثابت کرنی ہے، خود سے، وقت سے، اور دنیا سے۔
زندگی کسی ایک جیت یا ہار کا نام نہیں، یہ ایک جاری رہنے والا سفر ہے۔ بعض
اوقات ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہو، جیسے اب آگے کچھ بھی
نہیں بچا۔ انسان اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے، دل بیٹھنے لگتا ہے، اور روح جیسے
بوجھ بن جاتی ہے۔ لیکن اسی وقت، کسی کونے میں چھپی ایک دھیمی سی آواز
ابھرتی ہے، جو کہتی ہے: ”بس تھوڑا اور۔“ یہ وہی لمحہ ہوتا ہے جہاں اصل
کہانی لکھی جاتی ہے۔ نہ وہ مقام جب انسان جیتتا ہے، نہ وہ لمحہ جب وہ ہارتا
ہے، بلکہ وہ پل جب وہ سب کچھ کھو کر بھی ہار ماننے سے انکار کرتا ہے۔
ہم سب کے حصے میں ایسے دن ضرور آتے ہیں جب راستے ختم سے لگتے ہیں۔ دروازے
بند ہو جاتے ہیں، اور ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ اُس خاموشی میں خود سے
لڑنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ جو جنگ باہر لڑی جاتی ہے، اُس میں تماشائی
ہوتے ہیں، شاباش ملتی ہے، ہارنے پر دلاسے۔ لیکن جو جنگ اندر لڑی جاتی ہے،
اُس میں کوئی نہیں ہوتا، نہ واہ واہ، نہ تسلی، نہ آنکھوں میں آنسو دیکھنے
والا کوئی۔ پھر بھی جو شخص اندر سے جیت جائے، وہی اصل میں کامیاب ہے۔
یہ سفر ہمیشہ سیدھا نہیں ہوتا۔ کبھی پہاڑوں جیسی رکاوٹیں، کبھی صحراؤں جیسی
تنہائیاں، کبھی طوفان جیسی الجھنیں، اور کبھی بس ایک خاموش آنسوں۔ لیکن ان
سب کے باوجود جو شخص آگے بڑھتا رہے، وہی شخص دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا
ہے۔ وہ دنیا کے لیے مثال نہیں بنتا، وہ اُن لوگوں کے لیے چراغ بنتا ہے جو
اندھیروں میں راستہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ گرنا، رکنا، تھکنا،
سب فطری ہے، لیکن ہار جانا اختیاری ہے۔ کامیابی ایک حالت ہے، اور وہ حالت
صرف اُن کو نصیب ہوتی ہے جو بار بار خود کو ازسرِ نو اٹھاتے ہیں۔ جن کی
امید ہر بار اندھیرے میں روشن ہوتی ہے۔ جن کی آنکھوں میں خواب مٹی تلے بھی
زندہ رہتے ہیں۔ جن کے دل میں یقین شکست کے باوجود دھڑکتا ہے۔ تو اگر تمہارے
سامنے آج ناکامی کھڑی ہے، تو اُسے خالی ہاتھ مت جانے دو۔ اُسے اپنے حوصلے
کی کہانی سنا دو۔ اُسے بتا دو کہ تمہارے لیے اختتام صرف وہ دن ہوگا، جب تم
نے رکنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ ورنہ ہر صبح، ہر سانس، ہر لمحہ، ایک اور موقع
ہے، ایک اور راستہ، ایک اور زندگی۔
یہ دنیا کیسا عجب تماشا ہے، کبھی تالیاں بجاتی ہے، کبھی پتھر مارتی ہے۔ ایک
دن تمہیں بلندیوں پر سجاتی ہے اور دوسرے دن تمہیں زمین میں دفن کرنے پر
تُلی ہوتی ہے۔ لیکن اگر انسان صرف دنیا کے فیصلوں پر جینا اور مرنا سیکھ
جائے، تو پھر وہ خود کہاں باقی رہتا ہے؟ اصل زندگی تو وہ ہے جو اپنی شرطوں
پر جِیتی جائے، اپنے یقین، اپنے ارادے، اور اپنے حوصلے سے لکھی جائے۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اب اور نہیں چلا جائے گا۔ دل کہتا ہے بس، یہیں
ختم ہو جاؤں، آنکھیں بند کر لوں، سب کچھ چھوڑ دوں۔ لیکن اُسی لمحے کہیں دل
کی تہہ میں دبی ایک روشنی تھرتھراتی ہے، وہ کہتی ہے، ”ابھی نہیں، ابھی بہت
کچھ باقی ہے۔“ وہ باقی کچھ صرف خواب نہیں ہوتے، وہ، وہ جنگیں ہوتی ہیں جو
ابھی لڑی جانی ہیں، وہ راستے ہوتے ہیں جو ابھی طے ہونے ہیں، وہ زخم ہوتے
ہیں جن کے ساتھ جینا سیکھنا ہے۔
کامیابی وہ نہیں جو تمہارے نام کے ساتھ لگ جائے، وہ تو ایک لمحہ ہے جو گزر
جاتا ہے۔ اصل کامیابی وہ ہے جب تم تھک کر بھی نہیں رکتے، جب تم گر کر بھی
ہار نہیں مانتے، جب تمہارے آنسو بھی تمہیں روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ
وہ مقام ہے جہاں دنیا ہار مان چکی ہوتی ہے، لیکن تمہارے اندر ایک خاموش
لڑاکا کہتا ہے: ”ابھی نہیں، میں ابھی بھی زندہ ہوں۔“ اور یہ ”زندہ ہونا“ سب
سے بڑی فتح ہے۔ کیونکہ دنیا کو شکست دینا آسان ہے، مگر اپنے اندر کے خوف،
تھکن، اور مایوسی کو ہرانا سب سے بڑی بہادری ہے۔ جو شخص یہ کر جائے، وہ وقت
کا قیدی نہیں رہتا، وہ خود وقت بن جاتا ہے۔ اُس کے فیصلے تاریخ لکھتے ہیں،
اُس کے الفاظ اقوال بن جاتے ہیں، اُس کی کہانیاں لوگوں کے دلوں میں چراغ بن
جاتی ہیں۔ تو جب تمہیں لگے کہ سب ختم ہو چکا ہے، تو ایک لمحے کے لیے رُک کر
اپنے اندر جھانکو۔ تمہیں وہاں ایک ایسی طاقت ملے گی جو تم نے کبھی دیکھی ہی
نہیں ہو گی۔ وہ طاقت تمہیں پھر سے اٹھا دے گی، تمہارے قدموں کو رفتار دے
گی، اور تمہاری آنکھوں کو ایک نیا خواب عطا کرے گی۔
کامیابی کا مطلب یہ نہیں کہ تم کبھی نہ ہارو، بلکہ یہ ہے کہ تم کبھی نہ
رکو۔ کیونکہ جو رکتا ہے، وہ مٹ جاتا ہے۔ جو تھکتا ہے، وہ سست ہو جاتا ہے۔
لیکن جو ہر درد کے بعد بھی مسکرا کر کہتا ہے ”اب دوبارہ چلتے ہیں“، وہی وہ
ہے جسے وقت بھی سلام کرتا ہے۔
|