میں کون ہوں؟

دنیا بہت شور مچاتی ہے۔ ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں، یہ کرو، وہ نہ کرو، یہ تمہارے لائق نہیں، وہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ تمہیں کیسا دکھنا چاہیے، کیسا بولنا چاہیے، کیسا جینا چاہیے، ہر بات کا ایک پیمانہ ہے جو دوسرے طے کرتے ہیں، تم نہیں۔ آہستہ آہستہ وہ شور تمہارے اندر اتر جاتا ہے، اور ایک دن تم خود کو بھول جاتے ہو۔ تم اپنے لفظ بولنا چھوڑ دیتے ہو، اپنے خوابوں سے نظریں چرا لیتے ہو، اپنی خواہشوں کو دفن کر دیتے ہو۔ اور بس، ایک ایسا وجود بن جاتے ہو جو دوسروں کی خواہشوں کو پورا کرتے کرتے سانس تو لیتا ہے، مگر جیتا نہیں۔

یہ زندگی، یہ سانسیں، یہ وقت، یہ سب تمہارے لیے ہے۔ تمہارے ہونے کی اپنی ایک پہچان ہے، جو کسی اور کی کہانی کا عکس نہیں ہونی چاہیے۔ تم پیدا اس لیے نہیں ہوئے کہ دوسروں کے فیصلے نبھاؤ، یا اُن راستوں پر چلو جو تمہارے دل کو چھوتے ہی نہیں۔ لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ معاشرہ، خاندان، رسمیں، روایتیں، یہ سب ہماری گردن پر ہاتھ رکھتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی زندگی ہے۔ ہم سمجھوتے کرتے ہیں، خاموشی اوڑھتے ہیں، اور سیکھ لیتے ہیں خوش ہونے کا دکھاوا۔ لیکن پھر کہیں نہ کہیں، کسی رات کی تنہائی میں، کسی خاموش لمحے میں، دل چپکے سے سوال کرتا ہے: ”میں کون ہوں؟“ اور اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہم نے کبھی خود کو جینے ہی نہیں دیا۔ ہم نے وہ کام کیا جو ہمیں بتایا گیا، وہ خواب دیکھے جو ہمارے نہیں تھے، وہ راستے چنے جو دوسروں نے ہمارے لیے طے کیے۔ ہم نے اپنی روح کو قید کر دیا، اور خود کو تسلی دی کہ یہی ٹھیک ہے، یہی سب کرتے ہیں۔ مگر یہ سب نہیں کرنا تھا۔ تمہیں اپنی راہ خود چُننی تھی۔ تمہیں وہ بننا تھا جو تم بن سکتے تھے، نہ کہ وہ جو تم سے بنوایا گیا۔ اور وقت کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ آج تمہارا ہے، کل کسی اور کا ہو گا۔ تمہاری سانسیں ایک حد تک ہیں، تمہارے پاس جو لمحے ہیں، وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ پھر تم کیسے یہ سب دوسروں کی مرضی سے گزار سکتے ہو؟

زندگی کا مطلب صرف سانس لینا نہیں، بلکہ پوری شدت سے جینا ہے۔ اپنی خوشی، اپنے درد، اپنے فیصلے، اپنی آزادی سے جینا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی تمہیں سمجھے، یا تمہیں سراہا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم اپنے آپ سے سچ ہو۔ کہ تم وہ زندگی گزارو جو تمہارے اندر کی آواز کے قریب ہو، نہ کہ وہ جو تمہارے اردگرد کے لوگ چاہیں۔

اکثر لوگ آخر میں پچھتاتے ہیں، کہ کاش کچھ اور کر لیتے، کاش اپنی مرضی سے جیتے، کاش وہ خواب پورے کرتے جنہیں کبھی چھوا ہی نہیں۔ مگر اُس وقت صرف پچھتاوا بچتا ہے، وقت نہیں۔ تو رُک کر سوچو، تم کیا چاہتے ہو؟ تم کون ہو؟ تمہاری خواہشیں کیا ہیں؟ وہ کون سی آواز ہے جو تمہارے اندر بہت عرصے سے دبائی ہوئی ہے؟ اُسے سنو، اُسے محسوس کرو، اور پھر ایک قدم بڑھاؤ، اپنے لیے، صرف اپنے لیے۔ کیونکہ جب تم اپنی مرضی سے جیتے ہو، تبھی تم واقعی جیتے ہو۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سارا شہر جانتا ہے ہمیں، مگر ہم خود نہیں۔ روز آئینے کے سامنے ایک چہرہ آتا ہے، جو مانوس تو ہے، لیکن اپنوں جیسا نہیں لگتا۔ ہم جیتے ہیں، کام کرتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، مسکراتے ہیں، لیکن اندر کہیں کچھ ساکت، کچھ ادھورا، کچھ بے رنگ سا رہ جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ ہم وہ سب تو کر رہے ہیں جو دنیا چاہتی ہے، مگر وہ نہیں جو ہمارا دل چاہتا ہے۔
تمہیں کبھی ایسا محسوس ہوا ہے کہ تم کسی اور کی زندگی جی رہے ہو؟ جیسے کوئی سکرپٹ تمہارے لیے پہلے ہی لکھ دیا گیا ہو، اور تم بس ایک کردار ہو جو اپنے جذبات بھی ہدایتکار کی مرضی سے ادا کرتا ہے؟ وہ لمحہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب تمہیں یہ شعور ہوتا ہے کہ تم صرف جیتے چلے جا رہے ہو، مگر زندہ نہیں ہو۔ تمہارے خوابوں کو جنم لیے عرصہ بیت گیا، مگر تم نے اُنہیں کبھی آنکھوں سے چھوا ہی نہیں۔ تم نے اپنے اندر کے فنکار، عاشق، سچ بولنے والے یا خواب دیکھنے والے کو کبھی باہر آنے ہی نہیں دیا۔

زندگی کو تمہاری ضرورت ہے۔ تمہارے ہونے کا مقصد صرف لوگوں کو خوش کرنا نہیں، بلکہ خود سے سچ بولنا ہے۔ وہ جو دل میں دبی خواہشیں ہیں، وہ جو اَن کہے لفظ ہیں، وہ جو چھُپی محبت ہے، وہ جو چھپے ہوئے آنسو ہیں، انہیں کبھی باہر لاؤ۔ اگر تم نے اپنا سچ نہ جیا، تو تم صرف سانسوں کی گنتی کرتے رہ جاؤ گے۔ اور وقت تمہارے قدموں کے نیچے سے ریت کی طرح پھسلتا جائے گا۔

لوگ کچھ بھی کہیں گے۔ وہ تمہارے فیصلوں پر ہنسیں گے، تمہاری راہوں پر شک کریں گے، تمہاری جدوجہد کو بے وقعت سمجھیں گے۔ لیکن یہی لوگ کل کو تمہارے پیچھے کہیں گے کہ ”اس نے اپنی زندگی اپنی شرطوں پر جینی سیکھ لی تھی۔“ اور یہی تمہاری جیت ہو گی۔ جس دن تم خود کو پہچان لو گے، خود سے پیار کرنا سیکھ لو گے، اُسی دن تم ایک نئی زندگی میں قدم رکھو گے۔ یہ راہیں شاید آسان نہ ہوں، مگر یہ تمہاری ہوں گی۔ ان پر چلتے ہوئے ہر قدم تمہیں اپنی اصل کے قریب لے جائے گا۔

زندگی کے ہر لمحے میں یہ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے: کیا تم کسی اور کی چھاپ بن کر جینا چاہتے ہو یا اپنا ایک نقش خود چھوڑنا چاہتے ہو؟ کیا تم دوسروں کی امیدوں کا بوجھ اٹھا کر جھکنا چاہتے ہو یا اپنے خوابوں کے پر لگا کر اُڑنا چاہتے ہو؟ یاد رکھو، تمہاری کہانی تمہارے لفظوں کی محتاج ہے، کسی اور کی زبان کی نہیں۔

کچھ لوگوں کو زندگی سمجھاتی ہے، کچھ کو زندگی سکھاتی ہے، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں زندگی صرف گزارنے کو ملتی ہے۔ وہ وقت کے دھارے میں بہتے ہیں، کبھی ادھر، کبھی اُدھر، لیکن ایک دن بیٹھ کر سوچتے ہیں، آخر میں ہوں کون؟ کہاں سے آیا تھا، کہاں جا رہا ہوں، اور کیوں؟ یہ سوال کسی کتاب سے نہیں آتا، نہ کسی استاد کے لیکچر سے، بلکہ دل کے اندر ایک اندھیرے گوشے سے اٹھتا ہے۔ وہ گوشہ جہاں ہم نے اپنے خوابوں کو دفن کیا، جہاں ہم نے اپنی مرضیاں چھپائیں، جہاں ہم نے وہ سب باتیں بند کر دیں جو ہم دنیا کو نہیں دکھا سکتے۔ اور پھر، ایک دن وہ سب چیخنے لگتی ہیں، خاموش چیخیں، جنہیں کوئی نہیں سنتا، سواۓ ہمارے۔

ہم سب نے کبھی نہ کبھی وہ چہرہ پہنا ہے جو ہمارا نہیں تھا۔ ہنسی کا وہ نقاب، کامیابی کا وہ لبادہ، تعلقات کی وہ زنجیر، جو اندر سے بوجھ بن جاتی ہے۔ ہم وہ سب کرنے لگتے ہیں جو ”درست“ سمجھا جاتا ہے، لیکن بھول جاتے ہیں کہ ”درست“ کا مطلب ہر شخص کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا۔ جو چیز دوسروں کے لیے منزل ہو، وہ ہمارے لیے جیل بھی بن سکتی ہے۔

اکثر راتوں میں، جب سب سو رہے ہوتے ہیں، ایک شخص جاگ رہا ہوتا ہے، اپنے اندر کے شور کے ساتھ۔ وہ سوچتا ہے، پلٹتا ہے، گھبراہٹ سے سانس لیتا ہے۔ نہیں، وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ بس زندہ ہے۔ شاید پہلی بار پوری شدت سے خود کو زندہ محسوس کر رہا ہے، کیونکہ وہ جان چکا ہے کہ وہ اب مزید اپنی حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ اور یہ لمحہ سب سے قیمتی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جہاں زندگی کی سب سے بڑی جنگ شروع ہوتی ہے، اپنے خلاف نہیں، دنیا کے خلاف نہیں، بلکہ اُن سب جھوٹے رنگوں کے خلاف جو وقت نے تم پر چڑھا دیے۔ یہ وہ وقت ہے جب تم سوال کرتے ہو: کیا میں خود کو ڈھونڈنے کے سفر پر نکل سکتا ہوں؟ کیا میرے اندر اتنی ہمت ہے کہ میں اپنے سچ کو آواز دے سکوں؟ یہ سوال چھوٹا نہیں۔ اس کا جواب آسان نہیں۔ لیکن جب تم ایک قدم اٹھاتے ہو، صرف ایک قدم، تو پوری کائنات تمہاری راہ میں چراغ رکھ دیتی ہے۔ تمہاری اندر کی صدا، جو برسوں سے دبائی جا رہی تھی، آہستہ آہستہ بلند ہونے لگتی ہے۔ تمہیں پھر نہ کسی کی ہاں کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کسی کے انکار کا خوف رہتا ہے۔ تب تم جانتے ہو کہ تم ہو، تمہارے جیسا کوئی نہیں۔ اور یہ ادراک، یہ پہچان، یہی اصل کامیابی ہے۔
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 26 Articles with 10847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.