ادب اطفال، کہانی کار اورموضوعات کا انتخاب
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
ازقلم: ذوالفقار علی بخاری ”بچوں کے لیے لکھنا مذاق نہیں ہے۔“ آپ کو میری کہی گئی بات سے اتفاق ہو سکتا ہے اورآپ اختلاف کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی کچھ کہانیاں پڑھ کربہت عجیب محسوس ہوتا ہے۔ جس نے یہ بات بہ خوبی عیاں کی ہے کہ ”بچوں کے ادب“ کے نام پر ایسا مواد ”ادب ا طفال کے ذخیرے“ میں شامل ہو چکا ہے اورہوتا رہتا ہے جسے ادب عالیہ قرار دیاجانا چاہیے۔ ایسی تحریریں یا مواد جو نونہالوں کی سوچ سے بالا تر ہو، اُسے کس طرح سے ادب اطفال قرار دے سکتے ہیں۔کیا اِس کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ وہ کسی ایسے قلم کار نے لکھا ہے جس کا تعلق بچوں کے ادب سے ہے یا بچوں کے رسائل میں شائع ہوا ہے تو اُسے ادب اطفال شمار کیا جانا چاہیے۔ کیا ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ جو مواد یا پیغام دیا جا رہا ہے وہ بچوں کی ذہنی استطاعت کے مطابق ہے۔ بچوں کے نام پر شائع ہونے والے رسائل میں نوجوانوں (بیس برس سے زائد)، والدین یا اساتذہ کے لیے مواد کیوں شامل کیا جاتا ہے؟ کیا اِس کی وجہ معیاری مواد کا نہ ملنا ہے یا پھر مدیران کی غفلت اورلاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ بڑوں اورنوجوانوں کے لیے الگ رسائل شائع ہونے چاہئیں،یہ نونہالوں کے ساتھ ظلم ہے کہ اُنھیں ”ادب اطفال“ کے نام پربڑوں کے لیے لکھے گئے مضامین اورکہانیاں پڑھنے کو دی جائیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگربچے مخصوص نوعیت کا مواد پڑھیں گے تو اُنھیں یہی محسوس ہوگا کہ وہ اُن کے لیے ہے،چاہے وہ اُن کے لیے نہ لکھا ہو۔جب مدیران بچوں کی سوچ ہی الگ نظریے پر رکھیں گے اوراُنھیں باور کروائیں گے کہ یہی ادب اطفال ہے تو پھر نونہالوں نے رسائل کو ہاتھ لگانا ہی نہیں ہے یا پھر وقت سے پہلے ذہنی طور پر بالغ ہو جائیں گے اوربچپنے کو کھو دیں گے۔ ماہ نامہ”مسلمان بچے“میں ایک نامناسب تحریر شائع ہوئی۔راقم الحروف نے تحریری اعتراض ارسال کیا۔جس پر نہ صرف شکایت کو درست تسلیم کیا گیا بل کہ معذرت بھی کی گئی۔کیا دیگر رسائل ایساکرنے کی جسارت کریں گے یا اعتراضات اُٹھانے والوں پر ہی تنقید کی جائے گی کہ ہمارے رسائل کی ساکھ کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ غلام فرید کمبوہ کی کہانی پر اعتراض کیا گیا تو اُنھوں نے خوش دلی سے اعتراف کیا کہ لاعلمی میں لکھ دیاتھا،جسے رسائل کے مدیران کو شائع کرنے سے قبل پرکھنا چاہیے تھا۔اِسی طرح سے عمارحسین کی کہانی پر براہ راست اُنھیں سنگین غلطی کا احساس دلوایا گیا۔افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں جنھیں محققین قرار دیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کبھی تحریری صورت میں حقائق منظرعام پر لانے کی کوشش نہیں کی تاہم مخصوص گروہ اُنھیں عظیم ترین قرار دیتا ہے۔بچوں کے رسائل میں شائع ہونے والے مواد پر ماہرنفسیات کی رائے لی جائے تو یقینی طور پرکئی انکشافات ہوں گے۔ جامعات میں ادب اطفا ل پر تحقیق کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ کسی ادیب کی کہانیوں کا نفسیاتی جائزہ ماہر نفسیات سے کروایا جائے۔ اِس حوالے سے مستند اورغیرجانبدار ماہرنفسیات کا تقرر اہمیت کا حامل ہوگا تاکہ حقیقی معنوں میں علم ہو سکے کہ کہانیاں کتنے فی صد نونہالوں کی نفسیات سے مطابقت رکھتی ہیں اورمقالہ نگارکی تحقیق سے کتنی مماثلت ہے۔ بدقسمتی سے ادیبوں کا مخصوص گروہ اپنے حلقے میں شامل ہر فرد کو عظیم ترین قرار دیتا ہے اوردیگر کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی معیاری لکھنے والے جنھوں نے بچوں کے لیے لکھا،اُن کو نہ تو دورحاضر کے قارئین زیادہ جانتے ہیں اورنہ ادیبوں کو علم ہے کہ وہ بچوں کے لکھاری ہیں۔لیکن جنھوں نے کم لکھا اُسے بڑھا چڑھا کر یوں پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے ادب اطفال کا عظیم سرمایہ ہو۔اِسی تناظر میں ایک کہانی کے کچھ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ ”۔۔۔انہوں نے لندن میں دوسری شادی کرلی ہے۔“ ”تیری آنکھوں کی روشنی اور بڑھے۔مجھ بدصورت بڑھیا کو اب کون دیکھے گا۔“ ”تھک گئی ہوں میں بوجھ اٹھاتے اٹھاتے۔۔اب اور سکت نہیں مجھ میں۔۔باپ تو عیش کر رہا ہے اوربیٹی جونک کی طرح میرا خون پی پی کر سانڈ بن رہی ہے۔کتنا کماؤں ٹھنساؤں پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔۔“ ”تمہاری ماں نے تمہیں بیچ دیا ہے۔ جانتی ہو پورے پچاس ہزار وصول کیے ہیں انہوں نے تمہارے۔۔“ ”وہ سب جھوٹ تھا بٹو۔۔۔۔“ بابا کی آواز کسی اندھے کنویں سے آرہی تھی۔ اِس کہانی پر آگے چل کر بات کر تے ہیں۔ پہلے حفیظ جالندھری کی منظوم کہانی”کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ“ کا تذکرہ کرتے ہیں جو کہ اختررضا سلیمی کی مرتب کردہ کتاب”آؤ بچو!سنو کہانی“کا حصہ بھی بنی ہے۔اِسے نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد نے جنوری2020میں شائع کیا تھا۔اِس کہانی میں والد بچوں کو کہانی سناتا ہے تو ماسوائے ننّھی کے دیگر کو کہانی پسند نہیں آتی ہے۔ ایک کردار کچھ یوں بولتا ہے: ”یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔“ اِس کہانی میں شامل چند اشعار کو ملاحظہ کیجیے۔ مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور لگا ناچنے سانپ کی دُم پہ مور کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر کریلا بجا نے لگا اُٹھ کر بِین لیے شیر سے بیر چُہیا نے چھین کہانی میں آگے چل کر ایک سوال کے جواب میں والد فرماتے ہیں کہ ”بھئی مجھے کیا معلوم۔۔کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔“ جس کہانی کی سطور آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ وہ بھی لکھنے والے نے لکھ دی ہیں۔ جسے بچوں کے دو رسائل میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔اِس کہانی”ایک تھی ماں“ کا واضح سبق جو سمجھ میں آیا ہے کہ جھوٹ بول کر وقتی مفاد حاصل کیا جا سکتا ہے جوکہ نونہالوں کے لیے نامناسب ہے۔ مئی 2025کے ماہ نامہ انوکھی کہانیاں، کراچی میں شائع ہونے والی کہانی کسی طور بچوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ جملوں کا انتخاب لاپرواہی سے کیا گیا ہے۔رسائل کو ایسی کہانیاں شائع نہیں کرنی چاہئیں جو اُن کی ساکھ کو مجروح کریں۔
|