مسوجنسٹ مت بنئیے !
—————
مرد اور خواتین سے مل کر معاشرہ بنتا ہے یعنی کہ دونوں انسان ہیں - دونوں
میں فیمینسٹ اور مسوجنسٹ کی تقسیم ہی بے بنیاد ہے -
میں عورت ہوں یہ ہی مری شناخت ہے -
فیمینزم کی تحریک کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ میں عورت ہوں لہذا مجھے حقوق
دیے جائیں -
فیمینزم کی تحریک بھی عورت کو حقوق دلوانے کے لیے چلائی گئی تھی -
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب مرد ردی ، ریپسٹ اور مسوجنسٹ ہیں - ایسا
بالکل بھی نہیں ہے بلکہ تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ خواتین کو ان کے جائز
حقوق دیے جائیں - انہیں تعلیم کا حق دیا جاۓ اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع
بھی فراہم کیے جائیں - یہ ہی فیمینزم ہے کہ معاشرے میں مساوات کو فروغ دیا
جاۓ - ہر جنس دوسری جنس کے برابر ہے ،مرد ،عورت ، خواجہ سرا سب کو برابر
حقوق ملنے چاہیے - اور ترقی کے یکساں مواقع بھی -
اسی اور نوے کی دہائی سے پوسٹ ماڈرنسٹ فیمینزم، پوسٹ کالونیل فیمنزم اور
ایکو فیمینزم کے رجحانات تیزی سے فروغ پاتے جارہے ہیں - آٹھ مارچ کو خواتین
کا عالمی دن قرار دیا گیا تو اس دن عورت مارچ بھی سوالیہ نشان بن کر رہ گیا
- عورتوں کو مارچ کاحق ہے لیکن عورت کی اہمیت کو صنفی پیمانہ سے ماپنا
بالکل غلط ہے اس طرح سے تیسری دنیا کے ملکوں کیلئے فیمینزم خصوصی طور
خطرناک رجحان بن کر سامنے آتا ہے۔ استعماری بیانیوں کیوجہ سے عوام میں بھی
ردعمل پیدا ہوتا ہے جو عورتوں کی آزادی کے بلند مقاصد کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک مابعد نو آبادیات کی پھیلائی ہوئی سامراجی زنجیروں میں
ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ عورت آج بھی پسماندہ ترین مخلوق ہے اس کی قربانیوں
کی قدر کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے - محرومی کا یہ احساس بغاوت کو
جنم دیتا ہے - مذہبی ضابطوں کی پابندی بھی نئی نسل کو گراں گزرتی ہے - پھر
سارا الزام فیمینزم پر آجاتا ہے کہ یہ عورتوں کو مرد دشمنی پر لگا رہا ہے۔
ہمارا دین اسلام عورتوں کو بے شمار حقوق دیتا ہے لیکن معاشرہ عورت کو کچل
کر رکھ دیتا ہے - یہ ہی وہ اندرونی بھڑاس ہے جسے نکالنے کے لیے فیمینسٹ کا
نعرہ بلند کیا جاتا ہے -
مسوجنسٹ اسے خود پر حملہ تصور کرکے عورت مارچ کا راستہ روکتے ہیں - ہم
کارپوریٹ فیمینزم کے حق میں نہیں ہیں جو عورت کو شمع محفل بنا کر معاشی ذمہ
داریوں کا بوجھ اس کے نازک کندھوں پر رکھ دیتا ہے - لیکن عورت کو خدارا
انسان تو سمجھئیے -کیا یہ ضروری ہے کہ عورت مرد کی زینت، غیرت، نعمت، عزت
وغیرہ کے حوالے سے پہچانی جائے - یہ تو معاشرے کے خود فریبی کے سانچے ہیں -
عورت اپنا آزاد وجود رکھتی ہے جیسا کوئی بھی مرد رکھتا ہے۔ عورت کا کسی بھی
حوالے سے کردار اور مقام تسلیم کرنے سے پہلے اسکا آزاد اور مکمل وجود تسلیم
کرنا ہوگا - آدھی آبادی کو سماج میں تخلیقی عمل سے دور رکھ کر ان پر
پابندیاں لگا کر اور قید کر کے کسی بھی معاشرے میں مثبت نتائج برآمد نہیں
کیے جا سکتے -
یورپ کی تقلید میں عورت کو رونق بازار نہیں بننا چاہیے البتہ عورت کو ملکیت
سمجھنا بھی درست نہیں ہے عورت چیز نہیں ہے اسے مرد نے بازار سے نہیں خریدا
ہے -اسی طرح جو لوگ شادی کا مطلب آزاد انسانوں کے باہمی تعلق کو نہیں
سمجھتے بلکہ عورت کو نکاح کے بعد ملکیت یا جنسی کھلونا سمجھ لیتے ہیں اور
اپنے لیےقرآن کی ایک آیت کو وہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں” عورتیں تمہاری
کھیتیاں ہیں “- لہذا وہ عورت سے ہر سلوک کو جائز سمجھتے ہیں جو کہ بالکل
غلط ہے - عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی کیونکہ کسان کے نذدیک قیمیتی ترین
چیز اس کی کھیتی ہوتی ہے جس کی وہ حفاظت کرتا ہے جس کی لیے وہ اپنی نیند
،آرام سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے -
ایسے لوگ جو عورت کو ملکیت جانتے ہیں ان کے کے لئے جیتی جاگتی انسان یعنی
عورت کی بجائے روبوٹس خریدنا زیادہ مناسب ہو سکتا ہے۔
خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہی دینا بے حد ضروری ہے - تاکہ انہیں اپنے حقوق
کا علم ہو اور وہ انکے لئے جدوجہد کرسکیں -خواتین منظم ہو کر حقوق اور
مساوات کی تحریکوں کا حصہ بنیں گی تو سماجی سطح پر پائے جانے والے صنفی
تضادات اور گھٹن کے خاتمے کے لیے کام کرسکیں گی -بااختیار عورت کے بغیر کسی
بھی صحت مند معاشرے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ترقی پسند سماج کیلئے
خواتین پر ظلم، جبر اور استحصال جیسے قابل مذمت واقعات اور جنسی استحصال کو
جڑ سے مٹانا لازمی ہے -
روشن خیالی، جائز آزادی اور مساوات صحت مند معاشرے کے لیے لازم ہیں ان پر
عمل ہوگا تو معاشرہ فیمینسٹ اور مسوجنسٹ جیسے تصورات کی شدت پسندی سے نکل
کر اعتدال کی راہ پر گامزن ہوجاۓ گا -
——-
|