جب رات گئے، ایک معمولی تنخوا دار شہری چھت پر چڑھ کر
سولر پینل کی گرد جھاڑتا ہے، تو وہ صرف دھوپ کو قید نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ
اپنے بچوں کے لیے اندھیروں سے آزادی خریدنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ وہ
اپنے خواب بیچ کر، بچوں کے کھلونوں سے منہ موڑ کر، اور ضروریاتِ زندگی کی
فہرست کو مختصر کر کے، سورج کی روشنی کو اپنا سہارا بنا رہا ہوتا ہے۔ یہ
کوئی عیش نہیں، یہ ایک مجبوری ہے، ایک مزاحمت ہے اُس نظام کے خلاف جس نے ہر
ماہ بل کے ساتھ آنکھوں میں اندھیرا بھر دیا ہے۔
ہزاروں شہریوں نے اپنی جیب سے سولر پینل لگوائے، نہ کسی اسکیم سے فائدہ لیا،
نہ سبسڈی کی بھیک مانگی، نہ حکومت کی چوکھٹ پر دستک دی۔ یہ وہ لوگ ہیں
جنہوں نے لوڈشیڈنگ کی چکی میں پسنا قبول نہیں کیا، بلکہ اپنے وسائل سے حل
نکالا۔ یہ لوگ دراصل حکومت کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے، قومی نظامِ توانائی پر
سے دباؤ کم کر رہے تھے، لیکن ان کی یہ خود انحصاری شاید. طاقتوروں کو ایک
آنکھ نہ بھائی۔
اب حکومت ان پینلز پر ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔ گویا سکھ کا سانس لینا بھی جرم
بن چکا ہے۔ اگر شہری بجلی کے بل سے بچنے کے لیے، ایک متبادل اور پائیدار حل
نکالتے ہیں، تو اُن پر مزید بوجھ ڈالنا کہاں کی منطق ہے؟ اگر انہوں نے اپنی
ذات پر بوجھ برداشت کر کے قومی نظام کو سہارا دیا ہے، تو کیا ان کا صلہ
مزید مہنگائی ہے؟
یہ صرف ایک ٹیکس نہیں، یہ اُن خوابوں پر شب خون ہے جو شہریوں نے خود بُنے
تھے۔ یہ اُن دعاؤں کی قیمت ہے جو ماؤں نے اپنے بچوں کو پنکھے کی ہوا ملنے
پر مانگی تھیں۔ یہ ٹیکس دراصل اس امید پر لگا ہے کہ شاید ہم خود کفیل ہو
جائیں، شاید ہم اپنی تقدیر خود لکھ سکیں۔
کیا یہ جرم ہے؟
کیا اپنی روشنی خود پیدا کرنا جرم بن چکا ہے؟
کیا اندھیروں سے لڑنے کی سزا اتنی بھاری ہونی چاہیے؟
اگر حکومت کو توانائی بحران کا حل واقعی چاہیے تو ان شہریوں کو سہولت دینی
چاہیے، راستے کھولنے چاہئیں، رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔ لیکن افسوس، یہاں
جو روشنی کی طرف بڑھتا ہے، اُس پر قیمتوں کا اندھیرا مسلط کر دیا جاتا ہے۔
ہم پوچھتے ہیں:
جب عوام نے بیزاری، تھکن اور بیچارگی کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑا،
تو کیا اُن کی حوصلہ افزائی کا یہی طریقہ ہے؟
کیا سورج کی روشنی پر بھی اب ٹیکس لگے گا؟
کیا حکومت یہ بتانا چاہتی ہے کہ روشنی اب صرف اشرافیہ کا حق ہے؟
یہ تحریر فقط ایک آواز ہے، اُس سسکی کی جو کسی پنکھے کے نیچے سونے والے
معصوم بچے کے ہونٹوں سے نکلی، اُس مزدور کی جو دن بھر کی مزدوری سے پینل کی
قسط دیتا ہے، اُس ماں کی جو بجلی کا بل نہیں، دودھ خریدنے کی فکر کرتی ہے۔
خدارا، عوام کو جینے دیں۔
خدارا، سورج پر پابندی نہ لگائیں۔
خدارا، اپنی ناکامیوں کا بوجھ اُن کندھوں پر نہ ڈالیں جو پہلے ہی جھکے ہوئے
ہیں۔ورنہ اللہ کے ہاں انصاف کے تقاضے بہت سارے ہیں جو مظلوموں کی آہ کے
نتیجے میں اپنا اثر پھر دکھاتے ہیں!
|