کراچی کراچی ہے


کراچی کو صرف شہر کہنا ناانصافی ہوگی۔ یہ دراصل ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ہر صفحہ کسی محلے، ہر جملہ کسی چورنگی اور ہر حرف کسی دلچسپ نام پر مشتمل ہے۔ ایک دفعہ میں نے سوچا کہ کراچی کے تمام علاقوں کی سیر کی جائے، لیکن اس "معصوم" خیال نے مجھے ایسے ایسے ناموں اور جگہوں تک پہنچا دیا جہاں پہنچ کر ہنسی، حیرت، الجھن اور کبھی کبھار افسوس — سب ایک ساتھ محسوس ہونے لگے۔

سفر کا آغاز "پاپوش نگر" سے کیا۔ نام سن کر یہی گمان ہوا کہ شاید جوتے یا چپلوں کا کوئی مشہور بازار ہو گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ "انڈا موڑ" آ گیا۔ لگا شاید ناشتہ مفت ملے گا، لیکن وہاں صرف دھوپ اور دھوئیں کا تڑکا تھا۔ اس کے فوراً بعد "کریلا موڑ" کا بورڈ نظر آیا اور مجھے لگا کہ کراچی نے اب میرے میٹھے خوابوں پر کڑوا سچ انڈیل دیا ہے۔

راستے میں "بھائ جان چوک" آیا۔ میں نے ایک رکشے والے سے پوچھا کہ یہاں کوئی مشہور بھائ جان رہتے ہیں؟ بولا: "یہاں سب بھائ جان ہی ہیں، نام رکھ کے کیا فرق پڑتا ہے؟" پھر "چیل چوک" پہنچا تو آسمان پر چیلیں ایسے گھوم رہی تھیں جیسے کوئی انتخابی مہم ہو اور وہ امیدوار ہوں!

"مچھر کالونی" کا نام سنتے ہی جسم پر خارش ہونے لگی، گویا وہاں کے مچھر صرف خون نہیں چوستے، اعصاب بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ "بھینس کالونی" میں جا کر لگا کہ شہر میں سب سے زیادہ آسودہ زندگی شاید وہی گزار رہی ہیں۔ پھر ایک مقام آیا "ناگن چورنگی"، میں نے فوراً فون پر امی کو کال کر کے کہا: "اگر میں واپس نہ آ سکوں تو ناگن نے آ لیا ہوگا۔"

شہر میں کچھ جگہیں وقت کے ساتھ مزاحیہ بن گئی ہیں۔ "دو منٹ چورنگی" پر میں 35 منٹ رُکا رہا اور آخرکار سمجھ گیا کہ یہاں ’دو منٹ‘ کا مطلب عام وقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ "خاموش کالونی" میں سناٹا ایسا کہ لگا جیسے سب لوگ قید ہیں یا قسم کھائی ہو کہ نہ بولیں گے نہ ہنسیں گے۔ "فیوچر کالونی" میں داخل ہوا تو امیدیں باندھیں، لیکن "گٹر باغیچہ" کی بدبو نے واپس ماضی میں دھکیل دیا۔

جب میں "خدا کی بستی" پہنچا تو لگا شاید یہاں کچھ سکون ملے گا، لیکن کچھ فاصلے پر ہی "رنچھوڑ لائن" آ گئی، تو سوچا، شاید یہاں کے لوگ جنگ سے پہلے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ "چمڑا چورنگی"، "مرغی خانہ"، "دنبہ گوٹھ" اور "بوتل گلی" جیسے ناموں نے میرے تصور کو اس قدر مشغول رکھا کہ مجھے لگا جیسے میں کسی مزاحیہ کہانی کا مرکزی کردار ہوں۔

پھر "بےروزگار چوک" آیا۔ وہاں ایک بینچ پر بیٹھا لڑکا بولا: "بھائی! نوکری نہیں، تو یہاں آ کے وقت گزار لو۔ کم از کم شہر سچ بولتا ہے۔" اور واقعی، کراچی جھوٹ نہیں بولتا۔ یہ شہر جیسا ہے، ویسا ہی نام رکھتا ہے۔

"پریشان چوک" پر پہنچتے ہی دل بھی پریشان ہو گیا اور میں نے خدا سے دعا مانگی — وہ دعا جو "دعا چوک" تک پہنچ کر شاید سنی گئی۔ کیونکہ اگلی سڑک تھی "اللہ والا ٹاؤن"… اور وہاں پہنچ کر لگا کہ کسی نے کہا ہو: "بیٹا، اب واپس چلے جاؤ۔ جتنا دیکھا، کافی ہے۔"

کراچی کے یہ نام صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک مذاق، ایک سچائی اور ایک تلخ حقیقت ہیں۔ ان میں ہنسی بھی چھپی ہے، بے بسی بھی، اور وہ رنگ بھی جو صرف کراچی جیسے شہر میں پنپ سکتے ہیں۔

اگر آپ کراچی کو صرف بحریہ، ڈیفنس یا گلشن کے زاویے سے دیکھتے ہیں، تو یقین جانئے، آپ نے اصل کراچی کو ابھی چھوا بھی نہیں۔

کراچی کا ہر علاقہ، ہر چوراہا، ہر کالونی — اپنی ایک پوری فلم ہے۔ بس آپ کو کردار بننے کی ہمت ہونی چاہیے۔

اگر آپ کبھی "اچانک چوک" جائیں، تو خبردار رہیں۔ وہاں کچھ بھی، کبھی بھی، اچانک ہو سکتا ہے
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 182 Articles with 191705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.