جس طرح چہروں کی بھیڑ میں ہر چہرے کی اپنی انفرادیت ہوتی
ہے، ہر آواز کی بازگشت جدا ہوتی ہے، ویسے ہی ہر انسان کا مزاج بھی اپنی
الگ پہچان رکھتا ہے۔ بعض لوگ نرم ہوا کی طرح ملتے ہیں۔ گفتگو کرتے ہیں تو
دل کی الجھنیں سلجھنے لگتی ہیں۔ کچھ لوگ تیز آندھی کی مانند ہوتے ہیں، جن
کی موجودگی میں سکوت بھی شور بن جاتا ہے۔ انسان کا اصل روپ اس کا مزاج ہے،
باقی سب تو ظاہری نقاب ہیں۔
مزاج وہ آئینہ ہے جس میں انسان کا باطن جھلکتا ہے۔ انسان کا باطن اگر روشن
ہو تو مزاج میں وسعت، نرمی اور کشادگی آ جاتی ہے۔ اور اگر باطن میں تاریکی
ہو تو مزاج میں تنگی، تلخی اور کڑواہٹ آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ ہر حال میں خوش
مزاج رہتے ہیں۔ مصیبت میں ہوں یا راحت میں، ان کے لہجے میں مٹھاس کم نہیں
ہوتی۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خوشی بھی ان کے لیے بوجھ بن جاتی ہے،
ان کے لبوں پر تبسم بھی شکوے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ خوش مزاجی نعمت ہے،
اور بدمزاجی آزمائش۔لیکن یہ آزمائش دوسروں سے زیادہ خود بدمزاج شخص کے
لیےعذاب ثابت ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ انسان کے مزاج کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے؟ کیا یہ وراثت سے
ملتا ہے؟ کیا حالات اس کو گھڑتے ہیں؟ یا پھر اس کی بنیاد کہیں اور ہے؟ اگر
وراثت سے ملتا ہے تو ایک خوش مزاج والدین کی اولاد انتہائی بدمزاج کیسے ہو
جاتی ہے؟ کئی دفعہ معاملہ بالکل برعکس بھی ہوتا ہے۔ والدین بدمزاج ہوں تو
اولادیں خوش اخلاق اور خوش مزاج ہو جاتی ہیں۔اگر مزاج کی تشکیل حالات کے
زیر اثر ہوتی ہے تو یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ بصرہ سے حسن، حبشہ سے بلال اور
روم سے صہیب جیسی پاکیزہ مزاج روحیں پیدا ہوتی ہیں اور مرکزِ روحانیت "مکہ"
سے ابوجہل " پیدا ہو جاتا ہے ؎
حسن ز بصرہ، بلال از حبش، صہیب از روم
ز خاک مکہ ابوجہل ایں چہ بو العجبی ست
مزاج کا تعلق خیال سے ہے۔ انسان کے باطنی شعور سے ہے۔ کشتِ دل میں تخمِ
خیال کو جس طرح بویا جائے مزاج کا درخت اسی طرح نمود پاتا ہے۔یعنی جیسا
خیال، ویسا مزاج۔حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک چھوٹے سے جملے میں اسی حقیقت
کو انتہائی خوب صورتی سے بیان کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "جس کا جو خیال ہے
اس کا وہی حال ہے۔"اگر خیال میں نرمیت ہو، روشنی ہو، تو انسان خود بھی نرم
اور روشن ہو جاتا ہے۔ اگر خیال کج ہو، تاریک ہو، تو زبان بھی زہریلی ہو
جاتی ہے اور رویہ بھی۔ حسنِ خیال ہی حسنِ مزاج کی پہلی سیڑھی ہے۔
جو شخص خیال کو سنوارتا ہے، وہ مزاج کو سنوارتا ہے۔ اور یہ کام تنہائی میں
ہوتا ہے، محفل میں نہیں۔ مزاج وہ شے ہے جو خلوت میں جنم لیتی ہے اور جلوت
میں ظاہر ہوتی ہے۔ دل کا موسم جب نرم ہو، تو زبان خود بخود متوازن ہو جاتی
ہے۔ اور دل کا موسم اگر خراب ہو، تو دنیا کا کوئی موسم خوشگوار نہیں لگتا۔
ایک خوش مزاج شخص کچے مکان میں بھی مسکرا لیتا ہے، اور بدمزاج شخص قیمتی
محل میں بھی اپنے اضطراب کو چھپا نہیں پاتا۔ یہ اس باطن کا معاملہ ہے جو
لباس، عہدہ یا مقام سے نہیں، ریاضت اور عرفان سے نکھرتا ہے۔
تصوف نے ہمیشہ اسی باطن کی اصلاح کی بات کی ہے۔ صوفی کبھی بھی ظاہر کی
خوشنمائی پر فریفتہ نہیں ہوا، وہ دل کی دنیا کا سیاح رہا۔ دل اگر ٹھیک ہو
جائے، تو مزاج خودبخود سنور جاتا ہے۔ صوفیاکے ہاں خوش مزاجی، حسنِ خلق کی
علامت رہی ہے۔ وہ مسکراہٹ کو صدقہ کہتے تھے، اور تلخی کو ظلم۔ اُن کی صحبت
میں بیٹھ کر بندہ نہ صرف ہنسنا سیکھتا تھا، بلکہ خاموشی سے بھی محبت کرنے
لگتا تھا۔ کیونکہ ان کے مزاج میں ایسی نورانیت ہوتی تھی جو دلوں کو سکون
دیتی تھی۔ خوش مزاجی کا سارا دار و مدار دل کی طہارت پر ہے۔
عرفانِ نفس صرف کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا، یہ ایک باطنی سفر ہے۔ اور یہ سفر
خاموشی سے طے ہوتا ہے، شور سے نہیں۔ بندہ جب خود پر غور کرتا ہے، اپنی
کمزوریوں کو تسلیم کرتا ہے، اپنی خواہشات کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتا
ہے، تو وہ دراصل اپنے مزاج کی تطہیر کر رہا ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہم کسی کو
سخت مزاج کہتے ہیں، مگر دراصل وہ خوف زدہ ہوتا ہے۔ سختی اُس کے دفاع کا
طریقہ ہوتی ہے۔ خوش مزاجی اصل میں خوف سے آزادی کا نام ہے۔ جس نے خوف کو
شکست دی، وہ لہجے کی محبت آشنائی سے واقف ہوا۔
حضرت واصف علی واصف فرمایا کرتے تھے کہ "جو اندر سے مسکرا رہا ہو، وہی باہر
بھی مسکراہٹ بانٹ سکتا ہے۔" جو شخص اندر سے شکست خوردہ ہو، اس کی ظاہری
مسکراہٹ بھی بوجھ بن جاتی ہے۔ مزاج، دل کا عکس ہے۔ جب تک دل میں امن نہ ہو،
تب تک زبان امن کی بات نہیں کر سکتی۔ خوش مزاجی صرف خوش اخلاقی نہیں، بلکہ
ایک روحانی کیفیت ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نے اپنے نفس کو قابو
میں کر لیا ہے، اور وہ زندگی کو قبول کرنے لگا ہے۔
بدمزاج شخص ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے، اور خوش مزاج شخص ہر چیز میں
خیر تلاش کرتا ہے۔ وہ مصیبت میں موقع دیکھتا ہے، وہ تنقید میں تربیت
ڈھونڈتا ہے، وہ تنہائی میں تجلی تلاش کرتا ہے۔ خوش مزاجی اندھے اعتماد کا
نام نہیں، بلکہ وہ عرفانی ادراک ہے جس کی روشنی میں انسان ہر شے کو حکمت کے
آئینے میں دیکھتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے باہر کا جہان بگاڑنے کے بجائے، اپنی
ذات کے اندر کا جہان سنوارتا ہے۔ وہ اندر کی فصل کو سرسبز کرتا ہے، تب جا
کے باہر کے موسم مہربان ہو جاتے ہیں۔
بدمزاجی کے لمحات انسان کی زندگی میں بادل کی طرح آتے ہیں، مگر کچھ لوگ ان
لمحوں کو طوفان بنا لیتے ہیں۔ مزاج کی خرابی، تعلقات کی خرابی میں بدل جاتی
ہے۔ لہجہ زہریلا ہو جائے تو رشتے مر جاتے ہیں۔ زبان میں مٹھاس نہ رہے تو
دلوں کے بیچ دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ خوش مزاجی تعلقات کو نمی دیتی ہے،
ان میں جان ڈالتی ہے۔ اگر انسان تھوڑا سا خاموش رہنا سیکھ جائے، تھوڑا سا
مسکرا لینا سیکھ جائے، تھوڑا سا درگزر کر لے، تو اس کی ذات لوگوں کے لیے
پناہ گاہ بن سکتی ہے۔
کبھی کبھی مزاج کی سختی دل کی پیاس کی علامت ہوتی ہے۔ انسان محبت کے لیے
ترس رہا ہوتا ہے، مگر اظہار نہیں کر پاتا۔ وہ طنز کرتا ہے، غصہ کرتا ہے،
ناراض ہوتا ہے۔ مگر اصل میں وہ چاہتا ہے کہ کوئی اُسے سمجھے۔ خوش مزاج
انسان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ دوسروں کی خاموش فریاد کو سن لیتا
ہے۔ اس کے مزاج میں ایسی روشنی ہوتی ہے جو دوسرے کے اندر کی اندھیری کوٹھری
کو روشن کر دیتی ہے۔ وہ اپنا غصہ قربان کر دیتا ہے، اور اپنی خوشی دوسروں
کی خوشی میں تلاش کرتا ہے۔
خوش مزاجی ایک دعا ہے جو عمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کوئی ہنر نہیں،
یہ ایک برکت ہے جو دل کی صفائی سے ملتی ہے۔ جب انسان اپنی سوچ کو عبادت بنا
لے، اپنی نظر کو محبت بنا لے، اپنی خاموشی کو علم بنا لے، تب وہ خوش مزاجی
کے اسرار کو پا لیتا ہے۔ ایسے لوگ نایاب ہوتے ہیں، مگر وہ جہاں بھی ہوتے
ہیں، دلوں کو سکون دے جاتے ہیں۔
دنیا کو بدلا نہیں جا سکتا، لیکن مزاج کو بدلا جا سکتا ہے۔ جو شخص اپنا
مزاج بہتر کر لیتا ہے، وہ دنیا کو سہنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ ہر حال میں
رب کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ اس کے لبوں پر شکوہ نہیں، شکر ہوتا ہے۔ وہ موسم
کے بدلے بغیر بہار کی خوشبو بن جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ بدمزاجی اندرونی کجی،
خوف یا بے سکونی کی علامت ہے، جبکہ خوش مزاجی روح کی طہارت اور فکر کی
بالیدگی کا نتیجہ۔
|