شہداء کی سرزمین

فلسطین صرف ایک خطہ نہیں، یہ ایک عظیم قربانی کی داستان ہے، ایک مقدس زمین ہے جس پر ناحق خون کی نہریں بہائی جا رہی ہیں۔ یہ وہی سرزمین ہے جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ افسوس، آج یہ مقدس زمین ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں ہر روز ظلم، بربریت اور نسل کشی کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔

یہودی ریاست اسرائیل، جو 1947 میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی، آج درندہ صفت طاقت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ ریاست جو اپنے قیام کے لیے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے قائم کی گئی، آج ان ہی لوگوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے ہے۔ فلسطینی عوام گزشتہ سات دہائیوں سے ظلم سہتے آ رہے ہیں۔ 2024 تک صرف غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 54,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں سے 70 فیصد خواتین، بچے اور بزرگ ہیں، جنہوں نے کبھی بندوق نہیں اٹھائی، جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں، مگر وہ اسرائیلی فوجیوں کے ظلم کا پہلا نشانہ بنے۔

فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے ہر دن قیامت کا دن ہوتا ہے۔ مائیں اپنے لخت جگر کو ملبے سے نکالتی ہیں، بچے اپنے والدین کی لاشوں کو پکارتے ہیں، بوڑھے بے بسی سے اپنے جلے ہوئے گھروں کو دیکھتے ہیں، اور خواتین اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدانِ حریت میں اترتی ہیں۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے بلکہ تعلیمی ادارے، اسپتال، عبادت گاہیں اور رہائشی عمارتیں بھی زمین بوس ہو چکی ہیں۔ غزہ، جو کسی زمانے میں زندگی سے بھرپور تھا، آج ایک ملبے کا ڈھیر ہے۔

قطری نشریاتی ادارے "الجزیرہ" کے مطابق حالیہ جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیلی درندگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک طرف عالمی طاقتیں نام نہاد جنگ بندی کا اعلان کرتی ہیں، تو دوسری طرف اسرائیلی فوج صرف 24 گھنٹے کے اندر 87 معصوم فلسطینیوں کو شہید کر دیتی ہے۔ یہ کیسی جنگ بندی ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسا امن ہے جس میں صرف فلسطینیوں کا خون بہتا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟

یہ صورتحال صرف ایک جنگ نہیں بلکہ کھلی نسل کشی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی شناخت، ان کا وطن، ان کا کلچر، ان کی عبادات اور ان کی زندگی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے 57 اسلامی ممالک اس ظلم پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ صرف بیانات، مذمت، اور علامتی احتجاج۔ کیا شہید بچوں کی لاشیں اتنی بے وقعت ہو چکی ہیں کہ ان پر صرف "تشویش" کا اظہار ہی کافی سمجھا جاتا ہے؟ کیا مسجد اقصیٰ کی اذانیں، جو آج درد کی صداؤں میں تبدیل ہو چکی ہیں، مسلمان حکمرانوں کے دلوں کو نہیں دہلا سکتیں؟

اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ قراردادیں، کمیشنز، اور بیانات – یہ سب فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم نہیں بن سکے۔ فلسطینیوں کی چیخیں عالمی اداروں کے دروازوں کو ہلا نہیں سکیں کیونکہ یہ دروازے صرف طاقتوروں کے لیے کھلتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کب تک خاموش رہیں گے؟ کیا ہمارا ایمان ہمیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں دیتا؟ کیا ہم اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب فلسطین مکمل طور پر مٹ جائے؟ جب مسجد اقصیٰ کا نام صرف تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ جائے؟ اگر ہم نے اب بھی اپنی نیند نہ توڑی، تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کریں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم اُمہ صرف بند کمروں میں اجلاسوں، مذمتی قراردادوں اور بیانات تک محدود نہ رہے۔ ہمیں فلسطین کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اقتصادی، سفارتی اور عسکری سطح پر اسرائیل کے خلاف ایک منظم لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ فلسطین کے لیے انسانیت کی بنیاد پر عالمی بیداری مہم شروع کرنی ہوگی۔ سوشل میڈیا، تعلیمی ادارے، مساجد، اور ہر فورم پر فلسطینی مظلوموں کی حمایت کا علم بلند کرنا ہوگا۔ اگر ہم واقعی امت مسلمہ کا حصہ ہیں، تو ہمیں اپنے بھائیوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا ہوگا۔

یاد رکھیں، فلسطین کا بچہ جب شہید ہوتا ہے تو وہ صرف ایک انسان نہیں مرتا، بلکہ انسانیت کا جنازہ نکلتا ہے۔ جب ایک ماں اپنے بیٹے کی لاش اٹھاتی ہے، تو پوری امت کے ضمیر پر سوالیہ نشان ثبت ہو جاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف دعا نہ کریں، بلکہ دعا کے ساتھ ساتھ عملی قربانی کے لیے تیار ہوں۔ فلسطین کی سرزمین پکار رہی ہے، کیا ہم اس پکار پر لبیک کہیں گے؟
 

Ambreen
About the Author: Ambreen Read More Articles by Ambreen : 3 Articles with 218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.