سب سے پہلے تو عوام الناس میں پائی جانے والی یہ غلط فہمی
دور ہونی چاہیئے کہ ماں باپ کے بڑھاپے میں ایک بیٹی ہی اُن کا خیال رکھتی
ہے اُن کا ساتھ دیتی ہے بیٹا تو شادی کے بعد پرایا ہو جاتا ہے ، تو یہ بات
اتنی بھی صحیح نہیں ہے کتنے ہی واقعات ذاتی طور سے ہمارے علم میں ہیں کہ
بوڑھے بیمار لاچار ماں یا باپ بستر پر پڑے ہیں تو کوئی بہو اور بیٹا ہی ان
کی خدمت اور دیکھ بھال کر رہے ہیں ۔ بیٹیاں تو بیمار پرسی کے بہانے سے آتی
ہیں اور ماں باپ کے کمرے میں مورچہ بند ہو جاتی ہیں اور ہل کر پانی بھی
نہیں پیتیں ، پھر وہی بہو بیچاری ان کی بھی مدارات میں مصروف ہو جاتی ہے ۔
ایسی ایسی لالچی اور خودغرض بیٹیاں ہوتی ہیں جو ماں کے مرنے کا انتظار بھی
نہیں کرتیں اور اُس کی زندگی میں ہی اُس کے زیور کپڑوں اور قیمتی اشیاء پر
ہاتھ صاف کر دیتی ہیں ، گھر میں موجود بیٹے اور بہوئیں منہ تکتے رہ جاتے
ہیں ۔
جس بیٹی کی وفا کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں وہی جب بیاہ کر جاتی ہے تو کسی کے
بیٹے کو اس کے ماں باپ کا نہیں رہنے دیتی خود تو پرائی ہو کر بھی اپنے ماں
باپ کی بنی رہتی ہے اور میاں کو اُسی کے گھر میں اُس کے ماں باپ کے لئے
پرایا کر دیتی ہے ۔ یہ جو شادی کے بعد بیٹے کے پرایا ہو جانے کا رونا رویا
جاتا ہے تو اُس کے پیچھے ایسی ہی کوئی بیٹی ہوتی ہے اور یہی تصویر کا دوسرا
رخ ہے ۔ ورنہ تو ہر بہو بھی اتنی بُری نہیں ہوتی جتنی کہ سمجھی جاتی ہے اور
ہر بیٹی بھی اتنی اچھی نہیں ہوتی جتنا کہ اسے مشہور کر دیا گیا ہے ۔ کافی
سال پہلے پاکستان میں ایک جاننے والوں میں ایک بزرگ کی اہلیہ کا انتقال ہو
گیا اُس کے بعد وہ بہت ملول و مضمحل رہنے لگے اسی کیفیت میں ایک روز اُن کے
ساتھ ایک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں وہ معذور ہو گئے اور بستر سے لگ
گئے ۔ گھر میں موجود دو بہوئیں اُن کی خدمت کرتی تھیں ان کے لئے پرہیزی
کھانا پکاتی تھیں اُن کے گندے کپڑے اور بستر دھوتی تھیں ۔ بیٹے اپنی چھٹی
والے دن نہلا دُھلا دیتے تھے مصروفیات کی وجہ سے کبھی کبھی لمبے لمبے ناغے
بھی ہو جاتے تھے ۔ تین بیاہتا بیٹیاں اُسی شہر میں جوائنٹ کے جھنجھٹ سے پاک
اپنی زندگی خود جی رہی تھیں اور باپ کی خبر گیری کے بہانے میکے کی دہلیز
پکڑے رکھتی تھیں مگر مجال ہے جو کبھی کسی بیٹی نے کچن میں کھڑے ہو کر باپ
کے لئے کچھ بنایا ہو یا اُن کے کمرے کی صفائی کی ہو یا کبھی اُن کے کپڑے
دھو ڈالے ہوں ۔ یہ سب صرف بہوؤں کا فرض تھا ۔ بیٹیاں مہمان بنی ہوئی اپنی
بھی خدمت کرا رہی ہوتی تھیں ۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بزرگ کے سر تو
کیا داڑھی میں تک جوئیں پڑ گئیں وہ بھی سینکڑوں کی تعداد میں ۔ تین تین
بیٹیوں کے ہوتے ہوئے یہ نوبت کیسے آئی؟ کیا بزرگ کی جسمانی ذاتی صفائی
ستھرائی بھی بہوؤں کی ذمہ داری تھی؟
گزشتہ تین روز سے پورا سوشل میڈیا سینئر ٹی وی ایکٹریس عائشہ خان کی
انتہائی کسمپرسی و تنہائی کے عالم میں وفات کی خبروں اور تبصروں سے پٹا پڑا
ہے ۔ اُن کی موت کو واقع ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا جسد خاکی سے تعفن اٹھنے
لگا تو اڑوس پڑوس والوں کو خبر ہوئی اور جنگل کی آگ کی طرح ذرائع ابلاغ و
نشریات میں پھیل گئی ۔ اب تک جتنی بھی معلومات و اطلاعات سامنے آئی ہیں اُن
کے مطابق وہ لا وارث یا بے اولاد نہیں تھیں اُن کے تین بچے ہیں دو بیٹے اور
ایک بیٹی اور مبینہ طور پر اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد اپنی زندگی ہی میں
اپنی اولاد میں تقسیم کر دی تھی اور خود ایک اپارٹمنٹ میں تنہا رہتی تھیں ۔
یعنی کسی بیٹے کے گھر میں اُن کے لئے ایک کمرہ تک نہیں تھا اگر تھا بھی تو
کوئی تو وجہ ہو گی کہ اُنہوں نے تنہا رہنا پسند کیا ۔ اور رہی بیٹی تو اگر
وہ بیرون ملک بھی مقیم ہے تب بھی قابل معافی نہیں ہے ۔ ماں کو وہ بھی اپنے
ساتھ رکھ سکتی تھی اگر اِس سے اُس کی پرائیویسی متاثر ہو رہی تھی آزادی میں
خلل پڑ رہا تھا تو وہ کم از کم ماں سے رابطے میں تو رہ سکتی تھی ۔ اس پورے
ایک ہفتے کے دوران بھی اُس نے ماں کی کوئی خبر نہیں لی کہ وہ کس حال میں ہے؟
آج کے دور میں ذرائع مواصلات کی یلغار میں کسی بھی اولاد کا اپنے والدین سے
اس طرح لا تعلق رہنا سخت افسوسناک بھی ہے اور شرمناک بھی کہ روزانہ گھنٹوں
اپنے موبائل میں مشغول رہتے ہیں مگر والدین سے بات کرنے کے لئے چند لمحے
نہیں نکال سکتے اب اُنہیں ساتھ رکھنا تو کیا اُن سے بات کرنا بھی بوجھ لگتا
ہے ۔ اگر کسی بیٹی تک کو ماں کی پروا نہ ہو تو پھر بہو سے کیا گلہ وہ تو ہے
ہی پرائی اولاد ۔ |