دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑے انقلاب کے پیچھے
نوجوانوں کی طاقت، ان کی سوچ، جذبہ اور قربانیاں کارفرما رہی ہیں۔ چاہے وہ
1947 کا پاکستان کی آزادی کا خواب ہو، 1968 کا فرانس ہو یا عرب اسپرنگ کی
تحریک، ہر مقام پر نوجوانوں نے وقت کے ظالم نظاموں کے خلاف علم بغاوت بلند
کیا۔ لیکن جب کسی معاشرے کے نوجوان انقلاب کے راستے کو چھوڑ کر خوشامد،
مفاد پرستی اور چمچہ گیری کا راستہ اپناتے ہیں تو وہاں آزادی نہیں، غلامی
کا راج قائم ہو جاتا ہے۔
آج ہمارے اردگرد ایک عجیب خاموشی ہے۔ تعلیمی اداروں کے نوجوان جنہیں سوال
کرنا تھا، جو معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے تھے، آج وہ سوشل
میڈیا پر وائرل ہونے، سیلفیاں لینے یا کسی بڑے سیاستدان کی جھوٹی تعریف میں
مصروف ہیں۔ جو نوجوان کل سوچ، علم اور اصولوں کے نمائندہ تھے، آج وہ شہرت،
مراعات اور فوری کامیابی کی دوڑ میں اپنی نظریاتی بنیادیں بیچ چکے ہیں۔
یہ رویہ صرف فرد کی شکست نہیں بلکہ پورے معاشرے کی زوال کی علامت ہے۔ جب
نوجوان ضمیر کے سوداگر بن جائیں، جب وہ حق اور باطل میں فرق کرنا چھوڑ دیں،
جب وہ حق گوئی کے بجائے درباری کلچر میں فخر محسوس کریں، تو پھر تبدیلی کا
خواب فقط ایک فریب بن کر رہ جاتا ہے۔
چمچہ گیری صرف ایک اخلاقی بیماری نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی اداروں کی
بربادی کا آغاز ہے۔ ایسے معاشروں میں نظریات نہیں پلتے، وہاں صرف تابع داری
سکھائی جاتی ہے۔ جہاں ہر شخص اپنے سے بڑے کی چاپلوسی کو ترقی کی سیڑھی
سمجھے، وہاں سچ بولنے والا یا تو بےروزگار ہو جاتا ہے یا غدار ٹھہرتا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ نوجوان اس نیند سے بیدار ہوں۔ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں،
سوال کریں، پڑھیں، سوچیں اور اپنی آواز بلند کریں۔ تاریخ ان کا انتظار کر
رہی ہے — وہ تاریخ جو صرف بہادر لکھتے ہیں، نہ کہ درباری!
انقلاب کبھی حکمرانوں کی خواہش سے نہیں آتا، یہ ہمیشہ نوجوانوں کے جاگنے سے
آتا ہے۔ اگر آج کے نوجوان خود کو بدل لیں، تو کل کا نظام بھی بدل سکتا ہے۔
ورنہ غلامی صرف جسم کی نہیں، سوچ کی بھی ہو جاتی ہے اور وہ سب سے بدترین
ہوتی ہے۔
|