شہرت، دولت، اور روشنیاں... یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں شوبز
کی دنیا کے بارے میں سنائی دیتے ہیں۔ مگر ان چمکتی ہوئی دنیا کے پیچھے جو
سچ چھپا ہوتا ہے، وہ اکثر اندھیرے، تنہائی اور خاموشیوں سے بھرا ہوتا ہے۔
ایسا ہی ایک المیہ گزشتہ دنوں سامنے آیا جب مشہور اداکارہ عائشہ خان کی
تنہائی میں موت نے نہ صرف دل دہلا دیا، بلکہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ
زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، عائشہ خان کراچی کے ایک فلیٹ میں اکیلی رہتی تھیں۔ آٹھ دن
تک وہ اپنے فلیٹ میں بند رہیں، نہ کسی سے رابطہ، نہ کوئی ملاقات۔ جب دروازہ
نہیں کھلا، تو پڑوسیوں نے انتظامیہ کو اطلاع دی۔ دروازہ کھولا گیا تو اندر
ایک خاموش لاش ملی — وہ اداکارہ جو کبھی اسکرین پر زندگی سے بھرپور نظر آتی
تھی، بے جان ہو چکی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی تمام جائیداد اور اثاثے
اپنے بچوں کے نام کر دیے تھے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی موت کی خبر
ملنے کے باوجود نہ ان کے بچے آئے، نہ گھر والے۔ کوئی رونے والا، کوئی کندھا
دینے والا، کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہ تھا۔ وہ چلی گئیں... بالکل اسی
طرح جیسے وہ جیتی رہیں: خاموشی میں، تنہائی میں۔
یہ واقعہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک آئینہ ہے۔ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ہم
واقعی اپنے رشتوں کے لیے زندہ ہیں؟ کیا دولت، وراثت اور شہرت اتنی بڑی ہو
گئی ہے کہ رشتے بے معنی ہو گئے ہیں؟ ایک ماں، ایک خاتون، ایک فنکارہ... جس
نے سب کچھ اپنے بچوں کے لیے چھوڑا، جب وہ چلی گئی تو کوئی نہ آیا۔ یہی
انجام ہے؟ یا یہی سبق ہے؟
ہم سب کو رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے بڑھاپے میں کوئی ہمارا ہوگا؟
کیا ہم اپنے پیاروں کے ساتھ اس طرح وفا کر رہے ہیں کہ کل کو وہ ہمیں یاد
رکھیں گے؟ عائشہ خان کی موت صرف ایک انسان کا جانا نہیں، یہ ہمارے معاشرے
کے بے حسی کے عروج کی داستان ہے۔
شہرت عارضی ہے، دولت فانی ہے، مگر رشتے... اگر ہم نے ان کی قدر نہ کی، تو
ایک دن ہم بھی اسی تنہائی کے قیدی بن سکتے ہیں۔ ایک دن ہماری خاموشی بھی
شاید کسی دروازے کے بند رہنے پر ٹوٹے گی — اور تب شاید کوئی ہو... یا شاید
نہ ہو۔
|