دنیا کی ابتدائی تہذیبوں میں جب شعور کی شمع ابھی مدھم
تھی، عورت کو محض جسمانی وجود سمجھا گیا۔ بیٹی کی پیدائش کو باعثِ شرم جانا
گیا، اور اس ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اسے زندہ درگور کر دینا فخر سمجھا جاتا
تھا۔ اگرچہ صدیوں بیت گئیں، مگر اس جاہلانہ نفسیات کا سایہ اب بھی ہمارے
لاشعور پر چھایا رہا۔ عورت آج بھی ایک اجنبی مخلوق سمجھی جاتی ہے، جو یا تو
مرد کی ملکیت ہے یا اس کے راستے کی رکاوٹ۔
نفسیاتِ انسانی کے مطابق، جب فرد اپنی خواہشات کا غلام بن جائے، تو وہ ہر
ایسی شے سے نفرت کرنے لگتا ہے جو اس کے نفس کو قابو میں رکھنے کا سبب بنے۔
عورت، جو ایک حساس، مدبر، اور جذباتی وجود رکھتی ہے، مرد کے لیے کبھی ضمیر
کی آواز بن جاتی ہے، اور کبھی معاشرتی توازن کی علامت۔ مگر ایک نفس پرست
مرد کے لیے یہ آواز ناقابلِ برداشت ہے۔
مرد کی "Dominant Personality Disorder" کے تناظر میں دیکھا جائے تو عورت
کی خودمختاری اس کے انا کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ مرد عورت کو وہی مقام
دینا چاہتا ہے جو اس کی سہولت، طاقت اور اختیار کے تابع ہو۔ اور یہی وجہ ہے
کہ وہ عورت کو کبھی مکمل انسان تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اسے ایک مفعول
(objectified existence) کے طور پر دیکھتا ہے۔
معاشرے کی سب سے بھیانک منافقت یہ ہے کہ عورت کو ہر حالت میں موردِ الزام
ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر وہ ہجوم میں ہنس دے تو "بے ادب" کہلاتی ہے، اور اگر
خاموش رہے تو "اکڑی ہوئی"، "غرور میں چُور" تصور کی جاتی ہے۔ اگر وہ سوشل
میڈیا استعمال کرے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ "رابطوں کی تلاش میں ہے"،
اور اگر باہر صاف ستھرے لباس میں جائے تو طعنہ سننا پڑتا ہے "کس کے لیے
سنور کے نکلی ہو؟"۔
یہ وہ معاشرتی تضاد ہے جسے ماہرینِ نفسیات "Double Bind Theory" سے تعبیر
کرتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق فرد کو ایسے متضاد پیغامات دیے جاتے ہیں جن سے
نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ عورت اسی دہرے معیار کا شکار ہے۔ معاشرہ
اسے ایک ایسی گتھی میں الجھا دیتا ہے جہاں وہ چاہے جیسا بھی عمل کرے، نتیجہ
ہمیشہ نفی اور طعن و تشنیع کی صورت میں آتا ہے۔
عورت جب مسلسل تنقید، ملامت، اور طنز کا شکار ہو، تو اس کے اندر "Learned
Helplessness" پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ نفسیاتی کیفیت ہے جس میں فرد یہ سمجھ
لیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لے، حالات نہیں بدل سکتے۔ نتیجتاً وہ بےعمل،
خاموش، اور خود کو بے قیمت سمجھنے لگتی ہے۔
معاشرتی بندشوں، خاندان کی پابندیوں، اور مردوں کی ناپختہ ذہنیت کا بوجھ
اٹھاتے اٹھاتے عورت جذباتی طور پر مفلوج ہو جاتی ہے۔ وہ اپنا وجود کھو
بیٹھتی ہے اور پھر کسی مرد کے سہارے کو ہی اپنی نجات سمجھتی ہے۔ لیکن اسے
یاد رکھنا چاہیے کہ ہر مرد "محرم" نہیں ہوتا، اور ہر ہمدرد "خیرخواہ" نہیں
ہوتا۔
عورت کو سب سے پہلے خود اپنی ذات کو پہچاننا ہوگا۔ خود اعتمادی، خودداری،
اور خودمختاری اس کا ہتھیار بنیں۔ وہ اس وقت تک کسی پر اعتماد نہ کرے جب تک
وہ خود بااعتماد نہ ہو جائے۔ "Self Actualization" یعنی ذات کی تکمیل، وہ
آخری مرحلہ ہے جہاں عورت خود کو ایک مکمل وجود سمجھنا شروع کرتی ہے۔
عورت کو چاہیے کہ اپنے لیے جئے، اپنی صلاحیتوں کو پہچانے، اپنے جذبات کو
سنے، اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلے۔ دنیا اسے تب ہی تسلیم کرے گی جب
وہ خود کو تسلیم کرے گی۔
مرد کی نفسیات اور عورت کا وجود
مرد عورت کو تنہائی میں قبول کرتا ہے، تب جب وہ کسی اور کی نظروں سے اوجھل
ہو، جب اسے دوسروں سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ لیکن جب وہی عورت ہجوم کا حصہ بنتی
ہے، تو مرد اسے اپنی خودغرضی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ یہی مرد کی
اجتماعی نفسیات ہے، جو عورت کو یا تو دیوی مانتی ہے یا کنیز، درمیانی کوئی
شناخت نہیں۔
یہ تحریر ایک نفسیاتی اور معاشرتی دستاویز ہے جو اس زخم کی نشان دہی کرتی
ہے جو ہر عورت کے اندر رس رہا ہے۔ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے وجود کی قیمت
سمجھے۔
کیونکہ اگر عورت خود کو نہ پہچانے گی، تو دنیا اسے کبھی بھی وہ مقام نہیں
دے گی جو اس کا حق ہے۔ میری اس تحریر کو چند نفسیاتی کتب کا سہارہ حاصل ہوا
ہے جس میں مکمل انسانی نفسیات کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن یاد رہے عورت تبھی
کامیاب کہلائے گی جب آپنے مقصد کے حصول کے لیے جائز راستہ اختیار کرئے گی
اور خود کو معاشرے میں موجود درندوں سے محفوظ رکھے گی کیونکہ ہر عورت ہر
لحاظ سے محفوظ نہیں جب تک وہ خودشناس نہ ہو۔
سبیل
|