میلہ، بندر، اور گمشدہ انگلی

زندگی بھی ایک میلے کی مانند ہے۔ ہر طرف چمک دمک، رنگینی، ہجوم، اور پرکشش تماشے۔ مگر ان سب میں کہیں نہ کہیں ہم اپنا اصل راستہ، اصل مقصد، اور اپنے رہنما بزرگوں کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں ، کچھ ویسے ہی جیسے بچپن میں شیخ سعدیؒ نے ایک بندر کا تماشا دیکھتے ہوئے اپنے والد کی انگلی چھوڑ دی تھی۔

شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ایک میلے میں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ بندر کا کرتب ہو رہا تھا۔ وہ کرتب اتنا دلکش لگا کہ وہ اس میں محو ہو گئے۔ والد کا ہاتھ چھوٹ گیا، اور وہ میلے میں تنہا رہ گئے۔ جب تماشا ختم ہوا، تب انہیں ہوش آیا کہ وہ اکیلے ہیں۔ رونا شروع کیا، اور اسی اثنا میں والد تلاش کرتے ہوئے آ گئے۔ انہوں نے شفقت سے ایک ہلکی سی چپت لگائی اور کہا:
"نادان بچے! جو بےوقوف بزرگوں کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، وہ ایسے ہی روتے ہیں۔"

یہ بچپن کا ایک سادہ سا واقعہ تھا، مگر اس میں پوری زندگی کا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔ شیخ سعدیؒ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس پر غور کیا، تو پوری دنیا ایک میلے کی مانند نظر آئی۔ انسان اس دنیاوی چمک دمک، تماشوں، جھوٹی خوشیوں اور وقتی آسائشوں میں ایسا کھو جاتا ہے کہ اسے اپنی اصل منزل، اپنی روحانی پہچان، اور اللہ کے نیک بندوں کی رہنمائی کا خیال ہی نہیں رہتا۔

دنیا کا میلہ بہت دلکش ہے۔ یہاں ہر طرف نفس کی خواہشات کا شور ہے۔ کہیں دولت کا جادو ہے، کہیں شہرت کی جھوٹی چمک، کہیں فیشن، موسیقی، اور عیاشی کا طوفان۔ انسان ان چیزوں میں ایسا گرفتار ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کی آواز، ضمیر کی صدا، اور نیکی کا راستہ سب دھندلا جاتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہی زندگی ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔

جب زندگی کی شام ہونے لگتی ہے، جب موت کی آہٹ قریب آتی ہے، جب دنیا کے میلے کی روشنیاں بجھنے لگتی ہیں، تب انسان چونکتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جس بندر کے تماشے نے اسے مسحور کیا تھا، وہ محض ایک دھوکہ تھا۔ جو ہاتھ اس نے چھوڑا تھا یعنی دین، قرآن، بزرگوں کی صحبت، والدین کی دعائیں ، وہی اصل اثاثہ تھے۔
افسوس تب ہوتا ہے، جب سب کچھ ختم ہونے لگتا ہے۔ پھر انسان روتا ہے، تڑپتا ہے، اور دل سے کہتا ہے:
"کاش میں غافل نہ ہوتا، کاش میں وقت پر پلٹ آتا، کاش میں ان بزرگوں کا ساتھ نہ چھوڑتا جو مجھے اصل راہ دکھا رہے تھے۔"

یہ کالم لکھتے وقت میں سوچتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک آج شیخ سعدیؒ کے بچپن والے لمحے میں کھڑا ہے۔ کوئی موبائل کی اسکرین میں کھویا ہوا ہے، کوئی دنیاوی دوڑ میں، کوئی نفرتوں اور حسد میں، کوئی مال اور عہدوں کے پیچھے۔ اور اس سارے میلے میں ہم نے اپنے والد، استاد، نیک دوست، دین دار بزرگ، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی ہدایت کا دامن چھوڑ دیا ہے۔

اب بھی وقت ہے۔ کھیل ابھی مکمل ختم نہیں ہوا۔ ہمیں رک کر دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم اپنے رب سے، اپنے اصل رہنماؤں سے، اپنے سچے خیرخواہوں سے دور تو نہیں ہو چکے؟ اگر ہاں، تو ابھی پلٹ آنا ممکن ہے۔کیونکہ وہ رب، جو والد کی طرح ہمیں ڈھونڈتا ہے، وہ کبھی تھکتا نہیں۔ وہ بندے کے پلٹنے پر خوش ہوتا ہے، دروازے کھولتا ہے، اور کہتا ہے:
"میرے بندے! اگر تو ایک قدم میری طرف بڑھائے گا، میں دس قدم تیری طرف آؤں گا۔"

بس ضرورت اتنی ہے کہ ہم دنیا کے تماشے سے نظر ہٹاکر، اصل منزل کی طرف دیکھنے لگیں۔ وہی منزل جس کی طرف شیخ سعدیؒ نے بچپن میں سیکھا سبق ہمیں سمجھایا! کہ نادان وہ نہیں جو روئے، نادان وہ ہے جو تماشے میں کھو کر وہ دامن چھوڑ دے جس میں سکون، ہدایت، اور نجات ہے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 108 Articles with 77004 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.