ابھی حال ہی میں اسپین کے شہر میڈرڈ میں "2025 چین۔یورپ
انسانی حقوق سیمینار" کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں چین اور یورپ کے 20
سے زائد ممالک کے متعدد ماہرین، اسکالرز اور افسران جمع ہوئے۔ "ڈیجیٹل
انٹیلی جنس کے دور میں انسانی حقوق" کے مرکزی موضوع پر مرکوز اس سیمینار نے
ٹیکنالوجی کی عالمی لہر کے درمیان انسانی حقوق کے تحفظ کو نئے سرے سے تشکیل
دینے کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں پر غور کیا۔
ماہرین کے نزدیک ڈیجیٹل اور ذہین دور میں انسانی ہمدردی کا جذبہ پہلے سے
کہیں زیادہ اہم ہے۔ ترقی کی راہ میں بچوں، خواتین، بزرگوں یا گلوبل ساؤتھ
کے لوگوں کو پیچھے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ شرکاء کا یہ بھی کہنا تھا کہ "ہم اس
خصوصی بالادستی کو مسترد کرتے ہیں جو دنیا کو فاتحین اور مفتوحین میں تقسیم
کرتی ہے۔ ہم ایک کثیر قطبی دنیا پر یقین رکھتے ہیں جہاں تمام تہذیبیں،
ثقافتیں اور لوگ اپنی آواز رکھتے ہیں۔شرکاء نے چین کے مشترکہ خوشحالی، ہم
آہنگی اورپر امن ترقی کے اہداف کی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"صرف مشترکہ ترقی کے ذریعے ہی ہم وقت کی کسوٹی پر پورا اتر سکتے ہیں، اور
صرف حقیقی شمولیت کے ذریعے ہی اپنی کرہ ارض کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ اتحاد
ہمیں مضبوط بناتا ہے۔"
چائنا سوسائٹی فار ہیومین رائٹس اسٹڈیز کی جانب سے یورپی مہمانوں اور
اسکالرز کو چین کی انٹرنیٹ ترقی کے پیمانے سے آگاہ کیا گیا۔ جنوری 2025 میں
جاری ہونے والی "چین میں انٹرنیٹ کی ترقی پر شماریاتی رپورٹ" کا حوالہ دیتے
ہوئے، بتایا گیا کہ دسمبر 2024 تک چین میں 1.108 ارب انٹرنیٹ صارفین تھے،
جن کے پھیلاؤ کی شرح 78.6 فیصد تھی۔ آن لائن شاپنگ کے صارفین کی تعداد 97.4
کروڑ تھی، جو کل انٹرنیٹ صارفین کا 87.9 فیصد بنتی ہے۔ اس اعتبار سے چین کے
پاس دنیا میں سب سے بڑی انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ہے ۔
ڈیجیٹل ترقی میں چین کی شاندار پیش رفت نہ صرف اس کے ڈیجیٹل آبادی میں
توسیع کی عکاسی کرتی ہے بلکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اس کی پُرعزم
کوششوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ڈیجیٹل
قانون سازی میں چین کی کاوشیں اس کی عمدہ مثال ہیں ۔ ملک کی جانب سے "ڈیٹا
سیکیورٹی لاء" اور "ذاتی معلومات کے تحفظ کا قانون" جیسے قوانین شہریوں کی
ذاتی رازداری کے حقوق کو یقینی بناتے ہیں۔ یہ قانونی فریم ورک ضمانت دیتا
ہے کہ ڈیجیٹل دور میں شہریوں کا اپنی ذاتی معلومات پر کنٹرول برقرار رہے،
اس طرح رازداری کا تحفظ ہو اور ڈیٹا کے اخراج کو روکا جا سکے۔
اس کے علاوہ، چین نے مصنوعی ذہانت کے مکمل لائف سائیکل کا احاطہ کرنے والے
ایک ریگولیٹری فریم ورک کے قیام میں پہل کی ہے، جس نے چہرے کی شناخت اور
خودکار گاڑیوں جیسی ٹیکنالوجیز کے لیے واضح "سرخ لکیریں"مقرر کی ہیں۔ اس سے
نہ صرف مصنوعی ذہانت کی صحت مند ترقی کو فروغ ملا ہے بلکہ عوامی حفاظت اور
انفرادی حقوق کا تحفظ بھی ہوا ہے۔ ملک میں مختلف منصوبہ جات کے نفاذ کے
ذریعے، چین نے ڈیجیٹل وسائل کی فراہمی کو بڑھایا ہے اور علاقائی کمپیوٹنگ
پاور کے فرق کو فعال طور پر حل کیا ہے، جس سے دور دراز مغربی علاقے ڈیجیٹل
دور کے فوائد میں شریک ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات نے پورے ملک میں ڈیجیٹل
معیشت کی متوازن ترقی کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا ہے، جس سے مختلف خطوں کے
لوگوں کو ڈیجیٹل خدمات تک مساوی رسائی اور ان سے فائدہ اٹھانے کے مواقع
فراہم ہوئے ہیں۔
ڈیجیٹل دور میں کمزور گروہوں پر چین کی توجہ نے 14 کروڑ بزرگوں کو "ڈیجیٹل
خلیج" پار کرنے میں مدد دی ہے۔ ڈیجیٹل آلات کے انٹرفیس کو آسان بنانے اور
صارف دوست ایپلی کیشنز تیار کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے، بزرگ اب آن لائن
شاپنگ، اپنے خاندان سے ویڈیو کال اور آن لائن صحت کی خدمات تک رسائی جیسی
ڈیجیٹل دنیا کی سہولتیں حاصل کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی ڈیجیٹل گورننس کے میدان میں چین کے اثر و رسوخ میں بھی اضافہ
ہو رہا ہے۔ چین نے عالمی سطح پر "گلوبل اے آئی گورننس انیشی ایٹو" اور
"گلوبل ڈیٹا سیکیورٹی انیشی ایٹو" پیش کیے ہیں ۔ ان اقدامات کا مقصد ڈیجیٹل
گورننس میں عالمی تعاون کو فروغ دینا ہے، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ ڈیجیٹل
ٹیکنالوجی کو ایسے طریقے سے تیار اور لاگو کیا جائے جو تمام انسانیت کے لیے
فائدہ مند ہو اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔
ڈیجیٹل اور ذہین دور میں انسانی حقوق کو فروغ دینے کے چین کے تجربات اور
طریقہ کار بین الاقوامی برادری کے لیے اہم حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔انسانی
مستقبل چین کے بغیر نہیں لکھا جا سکتا۔ ڈیجیٹل ترقی اور انسانی حقوق کے
تحفظ میں چین کی مسلسل کوششیں ایک زیادہ منصفانہ، جامع اور پائیدار عالمی
برادری کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
|