دبئی میں برج خلیفہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی اب سعودی
عرب میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت بنانے کی بات ہورہی ہے۔دوبئی میں ایسی
عمارتیں بن رہی ہیں جن کی قیمت چھ ملین ڈالر تک ہے ان میں چاندی اور سونے
کے نلکے اور ہیرے لگے ہیں، لباس کو چھوڑیں صرف عطر کی ایک بوتل ملین ڈالر
میں بکتی ہے۔ کسی کی چھت پر ہیلی پیڈ ہے، تو کسی کے گیراج میں رولز رائس کی
قطاریں کھڑی ہیں۔ قطر سے بحرین اور ریاض سے ابوظہبی تک، تعمیرات کی چمک دمک
اور شاہانہ طرزِ زندگی دنیا کو دکھائی دیتی ہے۔ قاہرہ اور اسلام آباد بھی
پیچھے نہیں ہیں ۔
اب ذرا مغرب کی طرف نگاہ ڈالیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ دس
ڈاؤننگ اسٹریٹ، جو باہر سے دیکھیں تو لندن کے عام مکانوں میں گم ہو جاتی
ہے۔ جرمنی کی سابق چانسلر اینگیلا مرکل کا معمولی فلیٹ اور ان کا پبلک ٹرین
پر سفر معمول رہا۔ امریکہ میں دنیا کے امیر ترین افراد، جیسے مارک زکربرگ
یا ایلون مسک، اکثر سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی دولت تحقیق، خلائی
پروگرامز اور نئی ٹیکنالوجی پر لگا دیتے ہیں۔ ان کے ملکوں میں نہ سونے کے
نلکے عام ہیں، نہ ہر عمارت محل جیسی۔ لیکن علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاع
میں وہ دنیا کی صفِ اول میں ہیں۔
یہ فرق راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ یورپ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کبھی وہ
بھی جہالت، تعصب اور خانہ جنگیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ قرونِ وسطیٰ میں ان کے
چرچ اندھی عقیدت کے مرکز تھے، علم و سائنس کو کفر سمجھا جاتا تھا، اور
معاشرے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
اسی دور میں مسلمان دنیا جگمگا رہی تھی۔ بغداد کی درسگاہیں، دمشق کی
یونیورسٹیاں، قاہرہ کی لائبریریاں، اندلس کی درس و تدریس، اور خلافت
عثمانیہ کی طاقت و تنظیم، دنیا بھر میں مسلمانوں کی علمی، سائنسی اور
تہذیبی برتری کا نشان تھیں۔
پھر ہم نے علم چھوڑا، تحقیق بھلا دی، فرقہ واریت اور لسانیت میں الجھ
گئے۔ہم نے وہی غلطیاں دہرائیں جو یورپ نے قرونِ وسطیٰ میں کی تھیں۔نتیجہ یہ
نکلا کہ انیس سو اٹھارہ میں شام اور بغداد بکھر گئے۔ انیس سو انیس میں مصر
غیرملکی تسلط کا شکار ہوا۔ انیس سو چوبیس میں خلافت عثمانیہ ختم کر دی گئی۔
وقت کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ، پر تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہوئےتھے
امریکہ کا صرف ایک بی ٹو اسٹیلتھ بمبار طیارہ، دو ارب دس کروڑ میں بنا۔
اسرائیل، جس کا قیام انیس سو اڑتالیس میں ہوا، سائنس، زراعت، دفاع اور
ٹیکنالوجی میں دنیا سے آگے نکل چکا ہے۔
ان میں اور ہم میں فرق کیا ہے ؟
وہ لیبارٹریاں بناتے ہیں، ہم محل۔ وہ سائنسدان پیدا کرتے ہیں، ہم کلرک
وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، ہم ماضی پر فخر۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
|