ایران-اسرائیل جنگ -- مسلم دنیا کیلئے چشم کشا اسباق

یہ کالم بین الاقوامی اسلامی اسکالر، قلمکار، اور مسلم امہ کے فکری ترجمان پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کی فکر انگیز تحریر ہے، جسے ایران اسرائیل حالیہ جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ہے، جس میں جنگ کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور ان سے حاصل ہونے والے سبق کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنف نے اس تحریر میں مسلم دنیا کے اتحاد، دفاعی خودمختاری، دشمن کی پہچان، اور بین الاقوامی سفارت کاری کے موجودہ نظام کی ناکامی پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کالم موجودہ حالات میں مسلم قیادت اور عوام کے لیے ایک فکری رہنمائی کا کام دے سکتا ہے۔
ایران-اسرائیل جنگ ۔۔ مسلم دنیا کے لیے چشم کشا اسباق

تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ نہ صرف دو ریاستوں کے مابین عسکری تصادم تھا، بلکہ اس نے پوری مسلم امہ کو ایک کٹھن آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ یہ جنگ صرف میزائلوں اور ڈرونز کا تبادلہ نہیں تھی، بلکہ فلسطین کے مظلوموں کے لیے ایک امید اور مسلم اتحاد کے لیے ایک موقع تھی، جو ایک بار پھر ضائع ہو گیا۔ آج جب جنگ کا غبار چھٹ چکا ہے، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں تبصرے ہو رہے ہیں، تجزیے چھپ رہے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں کہ اسرائیل ایران جنگ پر مسلم دنیا کا مجموعی ردِعمل کیا رہا؟ اور کیا یہ ردِعمل امت کے شایانِ شان تھا؟ کئی عرب ممالک نے ایران کے ساتھ سیاسی و مسلکی اختلافات کی بنیاد پر غیر جانبداری کا رویہ اختیار کیا، حالانکہ ایران کی عسکری کاروائیاں دراصل اسرائیلی بربریت کے خلاف تھیں۔ ایران کو نظر انداز کر کے ان ممالک نے درحقیقت فلسطین کی جدوجہد کو کمزور کیا، جس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو پہنچا۔ اگر بات کریں او آئی سی کی تو وہ ایک مردہ گھوڑے یا بےبس تماشائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کا کردار محض بیانات تک محدود رہا۔ کوئی ہنگامی اجلاس، کوئی مشترکہ قرارداد، کوئی مؤثر عملی قدم سامنے نہیں آیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم امہ کے اجتماعی ضمیر کی یہ بےحسی اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو، ایک عالمی مسلم بلاک قائم کرے، مشترکہ خارجہ پالیسی وضع کرے، اور مظلوموں کے دفاع کے لیے عملی اقدامات کرے، ورنہ تاریخ ہمیں بےحسی کے مجرموں میں شمار کرے گی۔
یہ تباہ کن جنگ مسلم دنیا کے لیے گہرے غور و تدبر اور خود احتسابی کا لمحہ ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ جنگ چند ہفتوں میں اپنے انجام کو پہنچی، لیکن اس کے اثرات، پیغامات اور اسباق کئی دہائیوں تک مسلم اُمہ کو جھنجھوڑتے رہیں گے۔ خصوصاً غزہ میں جاری انسانی المیہ اور اسرائیلی بربریت کے تناظر میں اس جنگ نے مسلم ممالک کے کردار، اتحاد، سفارتی اہلیت اور دفاعی کمزوریوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ چند چشم کشا پہلوؤں سے اس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ (1) ایران کو اسرائیل کے حملوں کا تنہا سامنا کرنا پڑا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی بڑے مسلم ملک نے عملی طور پر اس کا ساتھ نہیں دیا۔ چند رسمی بیانات، سفارتی ناپسندیدگی اور کچھ علامتی احتجاجات کے سوا مسلم دنیا سے کوئی مشترکہ، مؤثر یا متفقہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہی حال غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ یہ صورت حال اس ناقابل تردید حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ مسلم دنیا آج بھی شدید داخلی تقسیم، باہمی عدم اعتماد اور قیادت کے بحران کا شکار ہے (2) اس جنگ نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، خاص طور پر امریکہ، مسلم دنیا کے اصل دشمن ہیں۔ جہاں ایک جانب ایران کے جوہری پروگرام پر شور و غوغا کیا گیا، وہیں اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر عالمی خاموشی گہرا تضاد ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر ہونے والی بمباری، ہسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنانے کے باوجود مغرب کی طرف سے "انسانی حقوق" کی دہائی سنائی نہیں دی۔ اس منافقانہ رویے پر مسلم دنیا کو اب آنکھیں کھولنی ہوں گی۔(3) ایران نے میزائل، ڈرون اور دیگر دفاعی ٹیکنالوجیز کا استعمال کر کے واضح کیا کہ اگرچہ وہ معاشی پابندیوں میں جکڑا ہوا ملک ہے، لیکن دفاع کے لیے خود پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے برعکس، بیشتر عرب ممالک مغرب سے اسلحہ خریدنے، دفاعی مشاورت لینے اور سیکیورٹی معاہدے کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔ جب تک مسلم ممالک اپنی دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت حاصل نہیں کریں گے، وہ کسی بحران میں آزادی سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ (4) اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، یا بین الاقوامی میڈیا، سب نے ایک طرفہ بیانیہ اپنایا۔ ایران کے میزائلوں کو "خطرہ برائے امن" قرار دیا گیا، جبکہ اسرائیلی فضائی حملوں میں بچوں، خواتین اور شہریوں کی ہلاکتوں کو "دفاعی اقدام" کا نام دیا گیا۔ فلسطینی عوام کو انسانی حقوق کی بات کرنے والے عالمی اداروں نے عملاً تنہا چھوڑ دیا۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا اقوام متحدہ کے متبادل ایک نیا عالمی فورم بنانے پر سنجیدگی سے غور کرے۔ (5) ایران کو دنیا بھر میں بالخصوص مسلم دنیا کی عوام کی زبردست اخلاقی حمایت حاصل رہی۔ پاکستان، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش جیسے ممالک میں عوام نے مظاہروں، ریلیوں اور غزہ سے اظہار یکجہتی کے ذریعے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی، لیکن ان ممالک کی حکومتیں اکثر زبانی مذمت سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم عوام بیدار ہو چکے ہیں، مگر ان کی قیادت اب بھی مفادات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ (6) اسرائیل نے دنیا کے میڈیا پر اپنے بیانیے کو نہ صرف مسلط کیا بلکہ متاثرہ فریق کو مجرم بنا کر پیش کیا۔ مغربی میڈیا نے فلسطینیوں کی لاشوں کو "جنگی نقصان" کہہ کر اسرائیلی ریاست کی صفائی پیش کی۔ اس سے یہ سبق ملا کہ مسلم دنیا کو اپنا بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورک قائم کرنا ہو گا جو ان کے موقف کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کر سکے۔ (7) ایران-اسرائیل جنگ نے جس طرح مسلم دنیا کو جھنجھوڑا، غزہ کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور جذباتی آزمائش ہے۔ ہزاروں شہادتیں، لاکھوں بے گھر افراد، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور بھوک سے بلکتے بچے، یہ سب مسلم دنیا کی بے حسی اور غفلت پر ایک کربناک سوالیہ نشان ہیں۔ اس وقت غزہ کو صرف مذمتی بیانات نہیں، بلکہ بھرپور عملی امداد، سفارتی مہمات، انسانی ہمدردی، اور تعمیر نو کے عزم کی ضرورت ہے۔ (8) ایران-اسرائیل جنگ اور غزہ کا بحران اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلم ممالک صرف وقتی ردعمل سے آگے بڑھ کر ایک جامع پالیسی وضع کریں۔ اس پالیسی کے اہم نکات درج ذیل ہو سکتے ہیں: (1) ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ جس میں تمام مسلم ممالک کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں۔ (2) ایک اسلامی انسانی امدادی نیٹ ورک جو ہر بحران میں فوری رسپانس دے سکے۔ (3) ایک اسلامی میڈیا اتحاد جو عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو اجاگر کرے۔(4) ایک سیاسی و سفارتی بلاک جو عالمی اداروں میں فلسطینی حقوق کی مؤثر وکالت کرے۔
ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ محض دو ریاستوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ مسلم دنیا کے ضمیر کا امتحان تھا۔ یہ جنگ ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے، خود پر انحصار نہیں کریں گے، اور دشمن کو پہچان کر عملی اقدامات نہیں اٹھائیں گے، ہم اسی طرح تماشائی بنے رہیں گے۔ یہ وقت ہے جاگنے کا، قدم اٹھانے کا، اور اُمت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 216 Articles with 266196 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More