بارش کی پہلی بوند جیسے زمین پر گرتی ہے، ایک خوشبو سی
اٹھتی ہے۔ وہ خوشبو جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، صرف محسوس کیا جا
سکتا ہے۔ یہی حال کچھ چہروں، کچھ ناموں، کچھ یادوں کا ہوتا ہے۔ وہ ہماری
زندگی میں کبھی آئے نہیں ہوتے، مگر ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ اُن سے جُڑے
جذبات ہم اپنے اندر لیے پھرتے ہیں، جیسے برسوں کی رفاقت ہو، جیسے صدیوں کی
شناسائی ہو۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کا وجود ہماری حقیقت سے باہر ہوتا ہے، مگر اس کی
کمی ہماری دنیا کا حصہ بن جاتی ہے۔ اُس سے کبھی بات نہیں ہوئی، اُس کی
آنکھوں میں کبھی جھانکا نہیں، اُس کی آواز کبھی سنی نہیں، مگر دل اُس کے
تصور میں دھڑکنے لگتا ہے۔ اور وہ جسے ہم دل سے محسوس کرتے ہیں، وہ خود بھی
لاعلم ہوتا ہے کہ اُس کی موجودگی کہیں کسی کی تنہائی میں خوشبو کی طرح بسی
ہوئی ہے۔ ایسے لوگ جنہیں ہم جانتے ہیں مگر جو ہمیں نہیں جانتے، اُن سے
وابستہ چاہت بہت خاموش ہوتی ہے، بہت اَن کہی، مگر بہت سچی۔ دل چاہتا ہے کہ
وہ ایک لمحے کو جان جائیں، پہچان لیں، آنکھیں اُٹھا کر بس ایک نظر دیکھ لیں۔
مگر اکثر وہ نظر کبھی نہیں اٹھتی۔ اور جو محبت نگاہوں سے اَن کہی رہ جائے،
وہ دل کے نہاں خانوں میں گہری جڑیں جما لیتی ہے۔
کبھی بارش کی بوندیں گواہ بنتی ہیں۔ وہ گرتی ہیں، بہتی ہیں، اور خاموشی سے
زمین میں جذب ہو جاتی ہیں، جیسے کوئی دعا، جو کبھی لبوں پر نہ آ سکی۔ جیسے
کوئی خط، جو کبھی بھیجا نہ جا سکا۔ دل میں فقط ایک سوال گونجتا ہے: کیا وہ
بھی کبھی جانیں گے کہ کوئی اُن کے ہونے سے جیتا رہا؟ کوئی اُن کے بغیر بھی
اُن کے تصور میں ڈوبا رہا؟ اور جب یہ سوال ہر بار خاموشی میں گم ہو جاتا ہے،
تو دل خود سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ بارش کی بوندوں سے، ہواؤں سے، چاندنی
راتوں سے۔ اُن لمحوں سے جو بیت چکے، اور اُن یادوں سے جو کبھی بن نہیں سکیں۔
ہر شے ایک گواہ بن جاتی ہے اُس تعلق کی، جو دنیا کی نظر میں کبھی نہیں تھا،
مگر دل کی دنیا میں سب کچھ تھا۔
کبھی وہ لمحہ بھی آتا ہے کہ انسان اپنے جذبات کو لفظوں کا جامہ دینے کی ہمت
کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ جنہیں وہ جانتا ہے، وہ بھی اُسے جانیں۔ مگر
اکثر یہ احساس ناپید ہی رہتا ہے، اور وقت اُس محبت کو ایک ایسی شے میں ڈھال
دیتا ہے جو صرف اندر ہی اندر جلتی ہے، مگر باہر کچھ نہیں کہتی۔ انجان چہروں
کے ساتھ وابستگی کی اذیت بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ خوشی بھی دیتے ہیں، اور دُکھ
بھی۔ وہ خواب بھی دکھاتے ہیں، اور تنہا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ روح میں بسی
ایک خواہش ہوتے ہیں، نہ مکمل، نہ ختم۔ اور پھر بارش کی ہر بوند، ہر خاموش
شام، ہر تنہا صبح اُن کی یاد لے کر آتی ہے۔ اور ہم ہر بار اُن لمحوں کو
جینے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی حقیقت کا روپ نہ لے سکے۔ اور سب کچھ جانتے
ہوئے بھی دل میں امید رہتی ہے، شاید کبھی وہ جان جائیں، شاید کبھی ایک نظر،
ایک لمحہ، ایک اقرار، لیکن تب تک، وہ صرف خواب ہیں۔ اور خواب اکثر وہی ہوتے
ہیں، جو دیکھنے والے کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اے بارش، رک ذرا، یوں بے خبر نہ برسو، سنو، ایک بات کہنی ہے تم سے۔ تم تو
سب جانتی ہو ناں؟ تم نے تو وہ موسم بھی دیکھے ہیں جن میں کسی کی آنکھیں بھی
تم جیسی ہوا کرتی تھیں۔ تم تو اُن راستوں سے بھی گزری ہو جہاں اُس کی
سانسوں کی مہک رچی تھی، تم تو اُس کی کھڑکی پر بھی برسی ہو ناں، جہاں وہ چپ
چاپ بیٹھی تھی، اور دل میں کوئی نام دھڑک رہا تھا؟ تم تو اُس کی چھت پر بھی
اتری ہو، اُس کی ہتھیلی کو چھوا ہو گا تم نے، اُس کے بالوں میں الجھی ہو گی،
اُس کی آنکھوں کے سامنے ناچی ہو گی۔ اے بارش، تم تو اُس کے اتنی قریب رہی
ہو جتنی میں کبھی بھی نہ ہو سکا۔ تو سنو، اگر کبھی دوبارہ اُسے چھونا، اُس
کی پلکوں سے ٹپکنا، اُس کی دہلیز پر اُترنا، تو میرا سلام کہہ دینا۔ کہنا،
کوئی ہے جو آج بھی ہر بارش کے ساتھ اُس کا چہرہ سوچتا ہے۔ جو ہر قطرے کے
ساتھ دل کی کوئی دھڑکن گننے لگتا ہے۔ کہنا کہ اُس کی مسکراہٹ آج بھی کسی کی
صبحوں کی دعا ہے، اور اُس کی خاموشی کسی کی راتوں کی صدا۔ اور اگر کبھی تم
اُس کی آواز سنو، اُس کا قہقہہ، اُس کی آہٹ، تو بس ایک بار اُس کے کانوں
میں سرگوشی کر دینا، کہ ”کوئی ہے، جس نے کبھی تم سے بات نہ کی، مگر تمہارے
نام پر دل کی دیواروں پر بے نامی میں زندگی لکھ دی۔ کوئی ہے جو تمہیں تم سے
زیادہ تو نہیں جانتا، مگر تمہاری ایک جھلک کے لیے برسوں کی تنہائی سہہ گیا۔“
بارش، تم بکھرتی ہو، مگر تم میں ایک پیام ہوتا ہے۔ آج تمہیں اپنا قاصد
بنایا ہے، تمہارے قطروں میں ایک دل کی شکستہ صدا رکھی ہے۔ اگر وہ سن لے،
اگر وہ ایک لمحہ ٹھہر کر تمہیں محسوس کرے، اگر اُس کی پلکوں پر ایک نمی
ٹھیر جائے، تو سمجھ لینا کہ تم کامیاب ہو گئیں۔ اور اگر نہ سمجھے، نہ جانے،
نہ رکے، تو کیا ہوا؟ تم تو پھر بھی برسو گی، وہ تو پھر بھی تمہیں محسوس کرے
گی، اور میں؟ میں بھی پھر بھی تم میں اُسی کی موجودگی کو تلاش کرتا رہوں
گا۔ اے بارش، بس ایک بار، اُس کی ہتھیلی پر ٹھہرنا، میری طرف سے۔
بارش، تم تو جذبوں کی زبان ہو، نا کہ صرف بوندوں کا شور۔ تم وہ گواہ ہو جس
نے ہر عاشق کی دعا سنی ہے، ہر محروم کی فریاد کو چھوا ہے، ہر خاموش دل کی
دھڑکن کو محسوس کیا ہے۔ تمہارے برسنے میں وہ نرمی ہوتی ہے جو کسی کی یاد کے
لمس جیسی لگتی ہے، اور تمہاری خاموشی میں وہ صدا ہوتی ہے جو ہر وہ شخص سن
سکتا ہے جو اندر سے ٹوٹا ہوا ہو۔ تم جب زمین کو چومتی ہو، تو ایسا لگتا ہے
جیسے کسی کی جدائی سے سلگتی روح کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ جب تم کھڑکی کے شیشوں سے
ٹکراتی ہو، تو وہ جیسے کسی کا پیغام ہو جسے الفاظ میں کہہ نہ پایا ہو۔ تم
جب ہتھیلی پر گرتی ہو، تو دل دھڑکنے لگتا ہے کہ شاید وہی چھو گیا جسے برسوں
سے دیکھا نہیں۔ آج میری تحریر تمہارے سپرد ہے، اے بارش۔ یہ تحریر محض چند
جملے نہیں، یہ میری روح کی وہ صدا ہے جو کبھی کسی تک پہنچ نہیں سکی۔ یہ اُن
لمحوں کی گواہی ہے جو میری آنکھوں میں رکے رہے، اور میری زبان تک نہ پہنچے۔
یہ اُن خوابوں کی تعبیر ہے جنہیں کسی اور کی حقیقت کا علم نہ ہو سکا۔ اگر
تم اُسے دیکھو، سنو، چھو سکو، تو اُس سے کہنا، میری یہ باتیں کسی ایک دل کی
نہیں، ہر اُس دل کی ہیں جو خاموشی میں جیتا ہے، جو دیکھ کر بول نہیں سکتا،
جو چاہ کر پا نہیں سکتا۔ کہنا کہ تم جس شخص سے ناواقف ہو، مگر تمہاری
موجودگی میں وہ سانس لیتا ہے، اُس کی طرف سے یہ پیغام ہے۔ سن لو کہ کہیں
دیر نہ ہو جاے
میری یہ تحریر صرف میری کہانی نہیں، یہ ہر اُس دل کی آواز ہے، جو تڑپتا ہے،
جو سہتا ہے، جو چاہتا ہے، مگر خاموش رہتا ہے۔ یہ اُن لمحوں کی صدا ہے جو
آئے بغیر گزر جاتے ہیں، اُن ملاقاتوں کا نوحہ ہے جو ہو ہی نہیں سکتیں، اور
اُن محبتوں کا بیان ہے، جو صرف دل میں پلتی ہیں اور لفظوں میں کبھی مکمل
نہیں ہوتیں۔ تو اے بارش، جتنا ہو سکے، ان لفظوں کو بکھیر دینا۔ شاید کسی
تنہا کھڑکی کے پیچھے کھڑا کوئی دل، اِن بوندوں کے ساتھ میری تحریر کو سُن
لے۔ اور محسوس کرے کہ یہ اُس کی بھی آواز ہے۔
|