میں، صرف میں!"
درحقیقت ہم سب کی اندرونی آواز ہے — بس کبھی ہم اُسے سنتے ہیں، اور کبھی
نہیں۔
--اس دن صبح معمول سے ذرا مختلف تھی۔ موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔
نہ الارم بجا، نہ بچوں کے اسکول جانے کی تیاریاں سنائی دیں، نہ ہی بیگم کی
صبح صبح کی پکار : "سنئیے گا، جاتے ہوئے انڈے لیتے آئیے، دہی بھی، اور مرغی
بھی لیتے آئیے گا۔"
نہ بچوں کی بس کتابیں گرنے کی آواز آئی، نہ یونیفارم کے استری ہونے کے
بٹنوں کی چھنک، نہ ہی اماں جی کی کھانسی اور اُن کی مخصوص فرمائش: "بیٹا،
میرا سروتا کدھر ہے؟ دوا رکھ دی تھی نا سرہانے؟"
پورے گھر پر خاموشی کا ایک جال بچھا تھا۔ اور اسی خاموشی میں، ایک عجیب سا
خیال اُس کے دماغ میں سرسرایا: "کیوں نہ میں اپنے کان بند کروا لوں؟"
وہ سوچنے لگا: اگر آواز ہی بند ہو جائے، تو نہ کسی کے مسئلے مسائل سننے
پڑیں گے، نہ کسی کی ضرورتوں کی فہرست، نہ وہ مشورے دینے پڑیں گے جو ہر آتا
جاتا اُس سے مانگتا رہتا ہے۔
"میں کیوں کسی کو فری میں مشورے دیتا رہوں؟ ہر کسی کی سننا، ہر کسی کے غم
میں شریک ہونا، کیا میری اپنی زندگی نہیں؟ کیوں نہ صرف دیکھوں اور بولوں…
بس اپنی بولوں!"
یہ خیال اُسے اتنا حسین لگا کہ وہ اُسی دن ڈاکٹر کے پاس گیا۔ بغیر کسی کو
کچھ بتائے، ایک مختصر سا آپریشن کروا لیا، جس سے اُس کی سماعت مکمل طور پر
بند ہو گئی۔
--آپریشن کے بعد وہ سیدھا دفتر گیا۔ گیٹ پر پین نے اُسے بتایا: "سر، باس
بلا رہے ہیں۔"
وہ خوشی سے چل پڑا۔ اب وہ آزاد تھا، کسی کی آواز کا قیدی نہیں۔
دفتر پہچا۔
باس نے اُسے کمرے میں بلا کر کچھ ہدایات دیں، فائل دی، کچھ ضروری باتیں
کیں۔
مگر وہ تو خاموشی سے صرف اُن کے ہونٹوں کی حرکت دیکھتا رہا۔ آوازیں اُس تک
آتی ہی نہیں تھیں۔ بس اتنا سمجھ پایا کہ باس کے چہرے پر ناپسندیدگی تھی۔
کمرے میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک کولیگ آیا۔ آنکھیں نم، چہرہ پریشان۔ وہ
بول رہا تھا، ہاتھ جوڑ رہا تھا — شاید مدد مانگ رہا تھا۔
اس کے لبوں کی جنبش سے وہ بس اتنا سمجھ پایا: "میرا بیٹا ایکسیڈنٹ میں زخمی
ہوا ہے… بہت خون بہا ہے… پیسوں کی ضرورت ہے…"
وہ خاموش بیٹھا رہا۔ کوئی جواب نہیں، کوئی دلاسہ نہیں۔ کولیگ مایوسی کے
ساتھ دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
گھر جانے سے پہلے وہ ایک پارک میں چلا گیا۔ وہاں چند اجنبی لوگ بیٹھے تھے —
کچھ اخبار پڑھ رہے تھے، کچھ موبائل میں مصروف۔ وہ ایک بنچ پر کھڑا ہو گیا
اور اپنی فلسفیانہ تقریر شروع کر دی:
کائنات، روح، دنیا، انسان، وقت… سب پر بولتا چلا گیا۔ پھر اپنی چند نظمیں
بھی سنا دیں۔
لوگ ہاں میں سر ہلاتے رہے — شاید سمجھ رہے تھے، یا شاید بس وقت گزاری کر
رہے تھے۔ مگر وہ خوش ہو گیا: "میری آواز کو سننے والے بھی ہیں، میری قدر
کرنے والے بھی۔"
یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ سب تماش بین تھے — جنہیں کچھ سمجھ آیا یا نہیں،
مگر وہ اُن کی خاموشی کو عقیدت سمجھ بیٹھا۔
سورج غروب ہوا، لوگ گھروں کو روانہ ہوئے، اور وہ… اپنی خوش فہمی کے ساتھ
اپنے گھر آ گیا۔
اگلے دن وہ دفتر پہنچا۔ باس نے اُسے بلایا، چہرے پر سختی تھی۔ کاغذ کا ایک
پرزہ اُس کے ہاتھ میں تھمایا۔
وہ خاموشی سے اُسے دیکھتا رہا۔ "آپ کو ملازمت سے برطرف کیا جاتا ہے…"
وہ اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
اچانک فون پر میسج آیا — اُسی کولیگ کا: "میرا بیٹا کل انتقال کر گیا۔ خون
بہت بہہ گیا تھا۔ آپریشن نہ ہو سکا۔ جنازہ آج ہے۔"
دل پر جیسے چوٹ لگی۔
گھر آیا — ماں بستر پر نیم بے ہوش پڑی تھیں۔ بیوی نے کہا: "کل سے دوا ختم
ہے، آپ کو آواز دیتے رہے، لیکن آپ نے سنی اَن سنی کر دی۔"
بچے سہمے سہمے، ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے۔ بیوی کی نظروں میں ایک سوال
تھا — جیسے وہ کسی اجنبی کو دیکھ رہی ہو۔
وہ اپنے کمرے میں جا کر زور زور سے رونے لگا۔ اندر سے ایک تڑپ، ایک اذیت
ابھری:
> "یہ رویہ بظاہر بےرخی لگ سکتا ہے، مگر دراصل یہ ایک اندرونی کیفیت ہوتی
ہے — جسے دوسروں کے لیے سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔
اور جن کے لیے وہ شخص برسوں سایہ رہا ہو، اُن کے لیے یہ خاموشی بھی کمی کا
احساس بن جاتی ہے۔
محبت وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ایسا تعلق جو موسموں کے ساتھ بدل جائے،
وہ تعلق کمزور ہوتا ہے، اور جس رشتے کی جڑیں وقت سے بلند ہوں، وہی اصل رشتہ
ہوتا ہے۔
جب کوئی انسان اپنی ذات سے کچھ دیتا ہے تو وہ صرف وقت یا مال نہیں دیتا، وہ
خود کو تقسیم کرتا ہے۔ اور جو خود کو دے چکا ہو، اگر وہ پیچھے ہٹ جائے، تو
اس کی دی ہوئی سب قربانیاں جیسے ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں — اور رشتہ،
خواہ کتنا ہی مضبوط ہو، ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔"
پھر اسے اقبالؒ کا شعر یاد آیا:
> دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان
وہ سوچنے لگا: "لوگوں کی باتیں سن کر اگر اُن کے درد کا مدوا کر لیتا تو یہ
تو فرشتوں سے بھی بہتر عمل ہوتا۔"
اسے یہ بھی احساس ہوا: کم بولنا عبادت ہے، اور ایک اچھا سامع ہونا ایک نعمت
ہے۔
وہ روتے روتے تھک کر سو گیا۔
اچانک کسی نے اُسے کندھے سے جگایا۔ بیوی کی آواز: "اٹھئیے، صبح ہو گئی ہے،
بچوں کو اسکول چھوڑنا ہے، آفس بھی جانا ہے۔"
وہ ہڑبڑا کر اُٹھا۔ سب کچھ سنائی دے رہا تھا۔ بیوی نے پوچھا: "آپ رو کیوں
رہے ہیں؟"
وہ ہنس پڑا، اور رب کا شکر ادا کیا: "یااللہ! تو نے میری سننے کی صلاحیت
واپس دی…"
وہ اٹھا، کپڑے بدلے، چائے پی، بچوں کو پیار کیا، ماں کو دوا دی، بیوی کی
فرمائشیں سنیں…
اور اپنی زندگی کی آوازوں میں خوشی خوشی لوٹ آیا۔
خواب ختم ہوا تھا… مگر سیکھ باقی رہ گئی تھی۔
|