خاموشی کے حاشیے پر

کبھی کبھی دل ایک انجانے سے لمحے میں ٹھہر جاتا ہے۔ جیسے ہوا کا جھونکا بے آواز گزر جائے، مگر اندر کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دے۔ جیسے اندھیرے کمرے میں کسی کی خوشبو آ جائے، اور یاد کی دیوار پر ایک پرانا نقش ابھر آئے۔ کوئی لمحہ، کوئی سایہ، کوئی سانس، اور وہ ایک شخص، جو کبھی الفاظ میں سمایا ہی نہ جا سکا، دل میں پھر سے اتر آتا ہے۔
نہ وہ دن واپس آتے ہیں، نہ وہ ملاقاتیں، مگر اُن کا عکس کہیں نہ کہیں باقی رہتا ہے۔ ایک ہلکی سی سرگوشی کی طرح، جیسے کائنات کچھ کہنا چاہتی ہو، مگر چپ ہے۔ اور انسان، وہ بس سنتا ہے، ہر وہ بات جو کبھی کہی نہ گئی، ہر وہ خامشی جو بہت کچھ کہہ گئی۔ ایسا ہی ایک لمحہ آج پھر سے دل کے کونے میں دبے دبے اُبھر آیا۔ آنکھیں بند کیں تو چہرہ صاف دکھائی دینے لگا، سانس روکی تو آہٹ سنائی دینے لگی، دھڑکن رک رک کر کسی پرانی دھن کو دہرانے لگی۔ اور میں؟ میں بس خاموش بیٹھا تھا، جیسے کوئی پرانی دعا دہرا رہا ہوں۔
کبھی سوچتا ہوں، کیا وہ لمحے سچ تھے یا خواب؟ کیا وہ قربت واقعی میری زندگی کا حصہ بنی تھی یا محض ایک فریب تھا؟ مگر یاد، یاد تو سچ ہوتی ہے ناں؟ وہ تو جھوٹ نہیں بولتی۔ اور یہی سچ جب واپس آتا ہے، تو دل میں عجب ہلچل مچا دیتا ہے۔ سانسیں رکتی نہیں، پر وہ روانی بھی نہیں رہتی۔ دل دھڑکتا ہے، مگر جیسے کسی بوجھ تلے۔ سب کچھ تھم جاتا ہے، ایک انجانی خاموشی میں۔
کیا تم نے کبھی کسی کو اتنا چاہا ہے کہ اُس کی یاد آتے ہی تم چلنا بھول جاؤ؟ بات کرتے کرتے چپ ہو جاؤ؟ ہنستے ہنستے آنکھوں میں نمی تیر جائے؟ اگر چاہا ہے، تو تم سمجھ سکتے ہو کہ جب کوئی سانس بھی آہستہ لینے کو کہے، تو اس کی یاد کتنی مقدس ہوتی ہے۔ اتنی کہ خود دل کی دھڑکن بھی شرما جائے۔
میں نے اُسے چاہا تھا، بنا کہے، بنا چھوئے، بنا کسی دعوے کے۔ اور جب وہ چلی گئی، تو میری دنیا ساکت ہو گئی۔ کچھ ٹوٹا، کچھ بکھرا، مگر شور نہیں ہوا۔ صرف خاموشی رہ گئی، ایک مسلسل، چیخ چیخ کر رونے والی خاموشی۔ اب جب وہ یاد آتی ہے تو لفظ گم ہو جاتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ سب کچھ تھم جائے۔ دنیا اپنی گردش روک دے، وقت ٹھہر جائے، صرف ایک لمحہ ہو، جس میں وہ یاد آ سکے، آرام سے، بنا ہڑبونگ کے، بنا شور کے۔ دل کہتا ہے، سانسیں آہستہ چلیں، دھڑکنیں سست ہو جائیں، کہ یہ وقت اُس کی یاد کا ہے، اور اُس کی یاد عبادت جیسی ہے۔ اس میں خلل نہیں ہونا چاہیے۔
کیا تم نے کبھی کسی کے جانے کے بعد بھی اُسے اتنی شدت سے محسوس کیا ہے؟ میں کرتا ہوں۔ روز۔ ہر پل۔ اور اب تو یہ یاد ہی میری سانسوں کی تال بن چکی ہے۔ میری عبادت کا حصہ۔ دل چاہتا ہے، وہ لمحے، جو کبھی بیتے تھے، واپس آ جائیں۔ وہ شامیں جب تم کہیں نہیں ہوتیں مگر لگتا تھا ہر طرف تم ہو۔ وہ راتیں جب اندھیرے بھی تمہارا عکس بنتے تھے، اور خاموشی بھی تمہاری آواز سناتی تھی۔ اب کچھ باقی نہیں، نہ تم ہو، نہ تمہاری خوشبو، نہ وہ پرانی باتیں جن میں سانس لینا آسان ہوتا تھا۔ مگر پھر بھی دل ہر روز اُن ہی راستوں سے گزرتا ہے، جہاں تم کبھی بھی نہیں تھیں، صرف میں تھا، اور میری چاہت۔
یاد وہ چیز ہے جو رُکتی نہیں۔ اسے تم قید نہیں کر سکتے، نہ روک سکتے ہو، نہ بھلا سکتے ہو۔ یہ وہ مہمان ہے جو اجازت لیے بغیر آتا ہے، اور رُکتا بھی اتنا کہ دل پر بوجھ بن جائے۔ تمہاری یاد بھی ایسی ہی ہے۔ وہ کبھی ایک سرگوشی کی طرح آتی ہے، کبھی ایک چیخ کی صورت، کبھی ایک منظر بن کر آنکھوں کے سامنے ٹھہرتی ہے، اور کبھی دل کے اندر بس ایک خاموش آنسو کی طرح ٹپک جاتی ہے۔ میں جیتا ہوں، ہنستا ہوں، چلتا پھرتا ہوں، سب کچھ کرتا ہوں، مگر اندر وہی پرانی یاد ہر سانس کے ساتھ زندہ ہے۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے، سب کچھ چھوڑ کر، سب سے دور جا کر صرف تمہیں یاد کروں۔ ایک ایسا گوشہ ہو جہاں کوئی خلل نہ ڈالے، نہ وقت، نہ لوگ، نہ خود میرا وجود۔ صرف تم ہو، تمہاری وہ غیر موجودگی، اور میں، تمہارے بغیر بھی تمہارے ساتھ۔ میں چاہتا ہوں، ہر یاد کے ساتھ دل کی دھڑکنیں تھم جائیں، سانس رک جائے، وقت رک جائے، اور صرف تم رہ جاؤ۔ تم… جو کبھی تھی بھی نہیں، مگر سب کچھ تھی۔ کاش میں تمہیں بتا سکتا کہ تم کیا ہو میرے لیے۔ مگر اب یہ ممکن نہیں۔ اب تم کسی اور کی ہو، یا شاید کبھی کسی کی بھی نہ ہو، مگر میرے لیے تم ہمیشہ وہی رہو گی، جس کے لیے دل نے عبادت کی، جسے یاد کر کے میں نے اپنی دنیا بسائی، اور جسے کھو کر میں ہر دن مر رہا ہوں، مگر آہستہ آہستہ، خاموشی سے، اُس خاموشی سے جو تمہاری یاد کو عبادت مانتی ہے۔
تمہاری ہر بات، ہر یاد، میری سانسوں کا حصہ ہے۔ اور جب وہ یاد آتی ہے، تو دل خود سے کہتا ہے: سانسیں ذرا آہستہ، کہ یہ وقت بہت خاص ہے۔ تمہاری یاد کا وقت۔ اور میں نہیں چاہتا کہ کچھ بھی اس لمحے کو خراب کرے۔ نہ شور، نہ حرکت، نہ تیزی۔ بس خاموشی ہو، مکمل، گہری، دل کو چیرتی ہوئی خاموشی۔
میں اب تمہیں نہیں چاہتا، بس تمہاری یاد کی یہ مقدس خاموشی باقی رہنے دو۔ باقی کچھ نہیں چاہیے۔ خاموشی کے حاشیے پر تمہاری یاد اب بھی پوری شدت سے زندہ ہے، اور میں؟ میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ جب تم آؤ، صرف یاد بن کر ہی سہی، تو وقت تھم جائے، اور سانسیں تمہارے احترام میں، ذرا آہستہ چلیں۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 34 Articles with 13097 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.