بھارت ماہ رنگ لانگو کے قتل کا منصوبہ بنا چکا ہے


بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوری بعد ہی اس کے خلاف سازشوں کا ایک منظم اور طویل سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ 1947 سے اب تک کی بھارتی شر انگریزوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک ہی مرکزی نکتہ نظر آتا ہے: پاکستان کو کمزور کرنا، اس کے قومی وجود کو عدم استحکام سے دوچار کرنا، اور اس کی نظریاتی و جغرافیائی بنیادوں پر حملہ آور ہونا۔ 1971 میں بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" نے مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو پروان چڑھایا، اور پاکستان کو دولخت کیا،یہی فارمولا اب مغربی پاکستان، خصوصاً بلوچستان میں آزمایا جا رہا ہے۔

بلوچستان، جو کہ پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے، بھارت کے نشانے پر ہے۔ بھارتی ایجنسی "را" نے نہ صرف علیحدگی پسند تنظیموں کی سرپرستی کی بلکہ انہیں مالی معاونت، جدید اسلحہ، تربیت اور عالمی فورمز تک رسائی بھی فراہم کی۔ اس کے ذریعے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں بدامنی کو فروغ دیا گیا۔ تعلیمی اداروں، سیکیورٹی فورسز، حتیٰ کہ مساجد و بازاروں میں دھماکے کروا کر عام شہریوں کو خوف و ہراس کا شکار بنایا گیا۔ یہ سب کچھ اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ بلوچستان کے عوام ریاست پاکستان سے بدگمان ہوں اور اس کے جھوٹے من گھڑت بیانیے کو اپنائیں۔

کریمہ بلوچ جیسے کردار اسی پس منظر میں سامنے لائے گئے۔ انہیں نہ صرف میڈیا میں "ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ" کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ کینیڈا، یورپ اور امریکہ میں ان کی بھرپور سرپرستی کی گئی۔ لیکن جب یہی کردار بھارت کے لیے بوجھ بننے لگے تو ان سے چھٹکارا حاصل کر لیا گیا۔ کریمہ بلوچ کی موت اس کی واضح مثال ہے، جسے کینیڈا میں پراسرارطور پر قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی ذمہ داری الٹا پاکستان پر ڈال کر میڈیا میں پراپیگنڈا کیا گیا، حالانکہ خود بھارتی ایجنسی ہی اس سازش کے پیچھے تھی۔ "را" کی یہ پالیسی بالکل واضح ہے: جس کو استعمال کیا، اسے مار ڈالا، اور پھر اس کی لاش سے ریاستِ پاکستان کو بدنام کرنے کا کام لیا۔

اسی پالیسی کا اگلا نشانہ ماہ رنگ لانگو ہو سکتی ہے۔ ماہ رنگ لانگو ان دنوں ریاستی اداروں پر حملے، تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے فروغ جیسے سنگین جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے پابند سلاسل ہے۔ اس کی گرفتاری کے بعد بھارت نے اپنے میڈیا پر پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا، اس غدار کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا، لیکن درحقیقت، "را" کا اصل مقصد اس کی زندگی کا خاتمہ کرنا ہے، تاکہ اس کی موت کو ریاستی جبر و تشدد کا رنگ دے کر ایک بار پھر پاکستان کے خلاف عالمی سطح پربے بنیاد پراپیگنڈا کیا جا سکے۔

یہ ایک طویل المیہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی سرزمین پر فتنہ و فساد کو ہوا دینے کے لیے مقامی نوجوانوں کو استعمال کیا۔ بلوچستان میں جاری شورش میں جہاں بیرونی ہاتھ نمایاں ہیں، وہیں ان ہاتھوں کے ساتھ چلنے والے مقامی سہولت کار بھی ہیں، جنہیں بھارت مالی فوائد اور جھوٹے خواب دکھا کر گمراہ کرتا ہے۔بھارت نے اپنے ایجنٹ کریمہ بلوچ، ماہ رنگ لانگو، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کے ذریعے نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکایا گیا، ان کےہاتھوں سے کتابیں چھین کر ہتھیار تھما دئیے گئے، اور انہیں دہشت گردی کے راستے پر ڈال دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ماہ رنگ لانگو جیسے کردار بھارت کے لیے وقتی ہتھیار ہیں۔ جب تک یہ لوگ ریاست کے خلاف کام کرتے رہیں، تب تک انہیں "ہیرو" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور جیسے ہی ان کا کام ختم ہو جائے گا، ان کا انجام کریمہ بلوچ جیسا کر دیا جائے گا۔ یہی خطرہ اب ماہ رنگ لانگو کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ جیل میں اس کی موجودگی اسے محفوظ رکھے ہوئے ہے، لیکن جیسے ہی وہ رہائی پائے گی، "را" اسے راستے سے ہٹانے میں دیر نہیں کرے گی۔

یہ بات یاد رکھیے گاکہ بھارت کا منصوبہ صرف بلوچوں کو استعمال کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی عالمی اسٹریٹجک گیم ہے۔ سی پیک، گوادر پورٹ اور بلوچستان میں موجود معدنی وسائل بھارت کے لیے ناقابل برداشت حقیقت ہیں۔ سی پیک کے تحت پاکستان، چین اور وسطی ایشیا کے درمیان جو اقتصادی راہداری بن رہی ہے، وہ بھارت کو خطے میں تنہا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی لیے "را" نے بلوچستان میں تخریب کاری کو اپنی اولین ترجیح بنا رکھا ہے۔ بھارت بخوبی جانتا ہے کہ اگر بلوچستان مستحکم ہو گیا، تو پاکستان کی اقتصادی اور جغرافیائی حیثیت ناقابل تسخیر بن جائے گی۔

اسی پس منظر میں بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پرہراس موقع پر ریاستِ پاکستان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی یلغار کی جاتی ہے۔جب پاکستان کسی دہشت گرد کو گرفتار کرتا ہے یا عدالت سزا سناتی ہے، بھارتی لابی سرگرم ہو جاتی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر بین الاقوامی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں جس طرح عالمی میڈیا نے یک طرفہ طور پر بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو کوریج دی ہے، وہ بھارتی لابنگ کا ہی نتیجہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ باشعور بلوچ عوام اس چال کو پہچانیں۔ بھارت کی "مارو اور شور مچاؤ" کی پالیسی کو سمجھیں۔ یہ وہی فارمولا ہے جس کے تحت پہلے کریمہ بلوچ کو استعمال کیا گیا، پھر مارا گیا، اور پھر اس کی لاش پر سیاست کی گئی۔ آج یہی فارمولا ماہ رنگ لانگو پر آزمانے کا منصوبہ تیار کیا جاچکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماہ رنگ لانگو جیل میں ہے، اس لیے محفوظ ہے، لیکن بھارت کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی وہ جیل سے باہر آئے گی، ویسے ہی اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، اور پھر بھارت ایک نیا پروپیگنڈاکا آغاز کر دے گا۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ بیرونی قوتیں ان کی زمین، ان کے وسائل اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ بھارت کے تمام منصوبے بلوچ قوم کے خلاف ہیں،یہ کبھی بھی بلوچوں کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا جس نے کشمیر میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہایا۔

اگر بھارت واقعی اقوام کے حق خود ارادیت کا حامی ہوتا، تو آج کشمیر، خالصتان اور دیگر آزادی کی تحریکیں کچلی نہ جاتیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارت صرف ان علیحدگی پسند تحریکوں کو ایندھن فراہم کرتا ہے جو پاکستان کے خلاف ہوں، تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جا سکے۔

اب بلوچ عوام بھارتی بیانیے کو یکسر مسترد کرچکے ہیں وہ امن، ترقی اور خوشحالی کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے روشن مستقبل کا راز صرف اور صرف ریاست کے ساتھ دینے میں ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان سازشوں کو بے نقاب کریں، ان چہروں کو پہچانیں جو بیرونی آقاؤں کے لیے کام کر رہے ہیں، اور اس مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے متحد ہو
 

نسیم الحق زاہدی
About the Author: نسیم الحق زاہدی Read More Articles by نسیم الحق زاہدی: 230 Articles with 206341 views Alhamdulillah, I have been writing continuously for 28 years. Hundreds of my columns and articles have been published in national newspapers, magazine.. View More