میرا خوشحال بلوچستان
(نسیم الحق زاہدی, Lahore)
خوشحال بلوچستان پروگرام کے تحت صوبہ بھر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاچکا ہے۔مقصد صرف مستحکم بلوچستان ہے،آج ویژن بلوچستان 2030ء کی بنیاد پر صوبے پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی بلوچستان ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔اس پروگرام کے تحت کمیونی کیشن انفراسٹرکچر،ڈیموں کی تعمیر،پانی کی قلت کو دور کرنے سمیت دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔بلوچستان کا آئندہ مالی سال کے لیے 1028ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کیا گیا ہے،جس میں ترقیاتی پروگراموں کے 240ارب روپے مختص کیے گئے،بلوچستان مالی سال 2025-26کا بجٹ صوبے کی سیاسی،معاشی اور سماجی صورتحال کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔موجودہ بجٹ کا حجم گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔جس میں تعلیم،صحت اور روزگار اہم ترجیحات ہیں۔ صوبائی اسمبلی پوسٹ بجٹ اجلاس سے خطاب ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ بجٹ میں بلوچستان کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے منصوبے رکھے گئے ہیں، صوبے کی ترقی وخوشحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔عوام کے سہولیات کے لیے دن رات کام کررہے ہیں۔کئی سالوں سے غیر فعال صحت کے مراکز کو بحال کیا،ایک سال میں محکمہ تعلیم میں سولہ ہزار بھرتیاں کیں،تین ہزار سے زائد بند اسکولوں کو کھولا گیا۔بلوچ نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔بلوچستان میں پیپلز ائیر ایمبولینس سروس شروع کی جاری ہے جبکہ سیلاب متاثرین کے لیے 8ہزار مکانات کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے،جلد چابیاں دی جارہی ہیں۔سریاب تا کچلاک پیپلز ٹرین سروس کا آغاز کیا جارہا ہے۔چاغی میں انڈسٹریل اسٹیٹ بنایا جارہا ہے،اس علاوہ صوبے میں نکلنے والی گیس کے لیے کھاد فیکٹری لگائی جارہی ہے۔دوسری طرف عالمی بینک نے پاکستان کے لیے اہم مالی تعاون کی منظوری دیدی، جس کے تحت 19کروڑ 40لاکھ ڈالر کی رقم بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔جو نہ صرف صوبے کے بنیادی مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہوگی، بلکہ مقامی سطح پر معیشت اور روزگار کے مواقع کو فروغ دینے کا باعث بنے گی۔یہ رقم بلوچستان میں دواہم نوعیت کے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔پہلا منصوبہ تعلیم کے شعبے سے متعلق ہے،جس کا بنیادی مقصد بچوں کو معیاری اور موثر تعلیمی مواقع کی فراہمی ہے اور دوسرا منصوبہ بلوچستان کی پانی ضروریات سے جڑا ہوا ہے،جس کے تحت واٹر سیکیورٹی کے اقدامات کو موثر بنانے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔بلاشبہ یہ منصوبے بلوچستان کی ترقی وخوشحالی میں کلیدی اہمیت کے حامل ہونگے،ان منصوبوں کا مقصد بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی خلا کو پر کرنا ہے،کیونکہ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جو طویل المدتی ترقی کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور جب تعلیمی معیار بہتر ہوگا تو معاشی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔بلوچستان واٹر سیکیورٹی پراجیکٹ صوبے کو خشک سالی،پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے دیگر منفی اثرات سے محفوظ بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔یہ منصوبہ صرف پانی کے ذخیرے یاترسیل تک محدود نہیں بلکہ اس میں واٹر مینجمنٹ،سٹین ایبل ایگریکلچر اور مقامی آبادی کی تربیت جیسے عناصر شامل ہونگے۔ واضح رہے کہ جب بلوچستان جیسے خطوں میں ایک ساتھ انسانی ترقی،انفرااسٹرکچر اور قدرتی وسائل پر کام کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں لوگوں کو روزگار ملتا ہے،معیشت بہتر اورغربت کم ہوتی ہے۔اس وقت ریاست صوبہ بلوچستان میں تعلیم،صحت،سٹرکوں اور پلوں کی تعمیر اور تجارت پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔نوجوانوں کو جدید مہارتوں،معیاری تعلیم اور اندرون اور بیرون ممالک میں روزگار کے مواقع فراہم کرکے ان کی پوشید ہ صلاحیتوں کو ملک وقوم کے مفادمیں بروئے کار لایا جارہا ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے غریب طالب علموں کی سپورٹ کرنے کے لیے 2013ء میں ”بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ“(BEEF)کا قیام عمل میں لایا گیا۔جو کہ ضرورت مند طلبہ وطالبات کو پارشلی فنڈڈ اور فلی فنڈڈ وظائف فراہم کرتی ہے،بیف کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زکریا خان نورزئی کے مطابق ”بلوچستان ایجوکیشن انڈوومنٹ کی جانب سے فروری 2024سے لیکر فروری 2025ء تک جماعت نہم سے لیکر ایم فل کرنیوالے طلباء وطالبات کو 32ہزار550اسکالر شپ دی گئیں جن کی کل لاگت 2-66بلین روپے ہیں۔رواں سال 2025ء میں ”بلوچستان انڈوومنٹ فنڈ“کے تحت بلوچستان کے پسماندہ اضلاع کے ہونہار طلبہ وطالبات کے لیے فلی فنڈڈ اسکالر شپ پروگرام کا اعلان کیا گیا۔جس کا مقصد طلباء کو قومی وبین الاقوامی سطح پر اعلیٰ کے مواقع فراہم کرنا اور انہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے معاونت فراہم کرنا ہے۔اس اسکالر شپ پروگرام میں 2025کے تعلیمی سال کے لیے 11منتخب اضلاع کے 100طلباء کو فلی فنڈڈ اسکالرشپ فراہم کی جائے گی جن میں ضلع شیرانی،ضلع کوہلو،ضلع جھل مگسی،ضلع آواران،ضلع بارکھان،ضلع قلعہ عبداللہ،ضلع،واشک،ضلع زوب،ضلع موسیٰ خیل،ضلع ڈیرہ بگٹی،ضلع جعفر آباد شامل ہیں۔بیف نے 2024ء کی پالیسی کے تحت بلوچستان کے طلبا وطالبات میں فنی مہارتوں کے فروغ اور تکینکی تعلیم کے میدان میں دلچسپی بڑھانے کے لیے ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ (DAE)میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کو مالی معاونت فراہم کیں۔اس اسکیم کے تحت 501مستحق طلباء وطالبات میں تقریباً (2کروڑ)روپے کی رقم اسکالرشپ کی مد میں تقسیم کی گئیں۔مزید برآں،اسپیشل کوٹہ کے تحت صوبہ بلوچستان کے یتیم،معذور،اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے اور دیگر مستحق طلباء وطالبات کے لیے 51نشستیں مختص کی گئیں تاکہ کوئی بھی باصلاحیت طالب علم تعلیمی مواقع سے محروم نہ رہ جائے،ریاست اس وقت بلوچستان میں شعبہ”تعلیم“پر خصوصی توجہ دے رہی کیونکہ تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے دہشت گردی کا خاتمہ تعلیم کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔اورفتنہ الہندوستان کے ایجنٹ بلوچستان کے دشمن نہیں چاہتے کہ بلوچ نوجوان تعلیم حاصل کریں کیونکہ اس طرح ان کا ریاست مخالف من گھڑت بیانیہ زمین بوس ہوجائے گا،اسی لیے وہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں سے قلم اور کتابیں چھین کر ہتھیار تھما رہے ہیں۔ طلعت عزیز جیسے پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوانوں سے انہیں دہشت گرد، قاتل، مفرور،بھتہ خور اور اسمگلر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگر تعلیم یافتہ نوجوان نسل اب ان کالعدم تنظیموں کی اصلیت اور حقیقت کو جان چکی ہے۔دشمن ناکام ہوچکا ہے اور میرا بلوچستان خوشحالی کی راہ پر
|
|