کبھی کبھی انسان کی راہوں میں ایسے موڑ آ جاتے ہیں جہاں ہر بات، ہر احساس، اور ہر جذبہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس الجھاؤ میں کبھی دوسروں کے رویے ہمیں خالی پن میں دھکیل دیتے ہیں، کبھی اپنی ہی بے بسی کا احساس دل کو جکڑ لیتا ہے۔ کچھ رشتے ہوتے ہیں جو نہ جڑ کر رہتے ہیں نہ ٹوٹ کر، بس کہیں بیچ میں لٹکے رہ جاتے ہیں، اور ان کے بوجھ تلے دل کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ انسان کبھی چاہ کر بھی کسی کو الزام نہیں دے پاتا، کیونکہ کہیں نہ کہیں دل کو یہ یقین رہتا ہے کہ اُس شخص کی مجبوریاں ہوں گی، کوئی وجہ رہی ہوگی کہ وہ ساتھ چھوڑ گیا یا دور چلا گیا۔ دل یہ سوچ کر بھی رو پڑتا ہے کہ کوئی انسان اتنی آسانی سے بے وفا نہیں ہوتا، شاید وہ بھی اپنی لڑائی لڑ رہا تھا، شاید حالات نے اس کو مجبور کر دیا تھا، شاید کچھ وعدے نبھانا اس کے بس میں نہیں رہا ہوگا۔ اور ہم، بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب دل اور دماغ کے درمیان طویل بحث چھڑ جاتی ہے۔ دماغ الزام لگانے کو تیار رہتا ہے کہ جس نے دکھ دیا وہ قصور وار ہے، مگر دل، وہ پھر بھی اپنے تڑپتے جذبات کے ساتھ اُس کے لیے عذر تراشتا رہتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ اُس کے جانے کی کوئی تو وجہ رہی ہو گی۔ شاید اُس کے دل میں بھی کہیں دراڑیں پڑ گئی ہوں، شاید کسی کی مجبوری یا دباؤ اُس کی راہ کا روڑا بن گیا ہو۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ہم سب اس بے بسی کو دل سے محسوس کرتے ہیں۔ کبھی محبت میں، کبھی دوستی میں، کبھی کسی رشتے میں۔ ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ آخر کوئی اتنی جلدی کیسے بدل سکتا ہے؟ کیسے دور جا سکتا ہے؟ کیسے سب کچھ بھلا سکتا ہے؟ مگر پھر دل خود ہی سمجھا دیتا ہے کہ شاید سب کچھ اتنا سادہ نہیں جتنا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ شاید کچھ کہانیاں ادھوری ہی رہ جاتی ہیں، کچھ وعدے مجبوری کی دیوار سے ٹکرا کر دم توڑ دیتے ہیں، اور کچھ رشتے نامکمل ہی رہ جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ہم ان یادوں کو سینے میں چھپا کر جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ بھلا کر آگے بڑھ جائیں مگر دل وہیں کا وہیں رک جاتا ہے، کسی پرانی یاد کے تپتے صحرا میں۔ ان لمحوں میں آنکھوں کی نمی چھپانے کی کوشش لاحاصل بن جاتی ہے اور دل کے اندر کی خلش ہر سانس کے ساتھ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم دل کو تسلی دیتے ہیں کہ شاید قسمت کو یہی منظور تھا، شاید اس کے لیے یہی بہتر تھا، اور شاید ہمارے لیے بھی۔ مگر پھر بھی دل کے کسی کونے میں ایک کرب سا رہ جاتا ہے، ایک سوال سا گونجتا رہتا ہے کہ آخر وہ اتنا دور کیوں چلا گیا؟ ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے رہتے ہیں، اپنے تئیں ہر دلیل کو پرکھتے ہیں، مگر سچ یہی ہے کہ ہر کہانی کا ایک موڑ ہوتا ہے جہاں ہم بس تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔ وہ موڑ جہاں محبت، دوستی، خلوص، سب کچھ بے بس ہو جاتا ہے۔ اسی کرب میں ہم جیتے ہیں، کبھی دل کو بہلاتے ہیں، کبھی آنکھوں کو خشک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر ایک اور دن جینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ شاید یہی زندگی ہے۔ یہی زندگی ہے کہ ہم ہر دکھ کو اپنی ہنسی میں چھپاتے ہیں، ہر درد کو مسکراہٹ کے پیچھے چھپا کر جیتے ہیں، اور ہر بے وفائی کو مجبوری کا نام دے کر اُس کے لیے دل میں دعا کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ کہانی ہے جسے ہم ہر روز اپنے دل میں دہراتے ہیں۔ دل کے کسی کونے میں یہ خاموش دعا آج بھی پلتی رہتی ہے کہ جسے ہم نے بے وفا کہہ کر دل سے نکال دیا، وہ کبھی ہمیں اپنی مجبوریوں کی داستان سنا پاتا، دل کی الجھنیں کھول پاتا، اور ہم اس کی ہر دلیل کو سمجھ کر شاید اپنے دل کو دلاسا دے پاتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہو سکا، نہ آج تک ہو سکا اور نہ شاید کبھی ہو گا۔ یہی وہ خلش ہے جو دل کے کونے کونے میں کانٹے کی طرح چبھتی رہتی ہے، اور ہم اسے نکالنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ ہر رات جب تنہائی کا زہر پھیلنے لگتا ہے، تب یہی یادیں سانسوں کو تیز کر دیتی ہیں۔ ہم اپنے کمرے کی دیواروں سے، اپنے تکیے سے، اور کبھی اپنے ہی وجود سے سرگوشی کرنے لگتے ہیں کہ آخر وہ شخص کیوں بے وفا ہو گیا؟ کیوں ہر وعدہ توڑ گیا؟ کیوں اس نے ہمارے دل کو یوں زخمی کر دیا کہ اب ہر دھڑکن میں درد کی بازگشت سنائی دیتی ہے؟ دل جواب دیتا ہے، مگر اس جواب میں ایک عجیب سی بے بسی ہوتی ہے، شاید اس لیے کہ دل اب بھی اُس کو قصور وار نہیں مانتا، بلکہ اُس کی ہر بے وفائی میں بھی کوئی وجہ تلاش کر لیتا ہے، کوئی معصوم سا بہانہ تراش لیتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے جانے کتنے جھوٹ بولتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ اُس کا قصور نہیں، کبھی کہتے ہیں کہ حالات کی ستم ظریفی نے یہ سب کچھ کروا دیا۔ کبھی کبھی دل کی گہرائی سے یہی دعا نکلتی ہے کہ کاش وہ بھی ہمیں ایک لمحے کے لیے یاد کرے، کاش اس کا دل بھی کبھی ہماری طرح بے چین ہو، اور وہ پلٹ کر ایک بار پوچھے کہ ہم کیسے ہیں؟ مگر اس سوال کا جواب نہ اُس نے کبھی دیا، نہ کبھی دے گا۔ دل کے ان سوالات اور دلائل کے درمیان ہم زندگی کو کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ ہر دن کا سورج ڈوبنے پر بس یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید کل کا دن اُس کے لیے کچھ بدل لے آئے، شاید وہ لوٹ آئے، شاید سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے۔ لیکن اگلی صبح کا سورج پھر سے وہی خالی پن لے کر ابھرتا ہے۔ اور ہم؟ ہم اپنے آپ کو یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، سب کچھ بہتر ہو جائے گا، مگر یہ امید کب حقیقت بنے گی، اس کا کوئی جواب نہیں۔ یہی تو کرب ہے، یہی تو اذیت ہے، کہ ہم اُسے آج بھی بے وفا نہیں کہہ پاتے، اُس کی یاد کو آج بھی کسی مجبوری کے پردے میں چھپا لیتے ہیں، اور اُس کے لیے دل سے دعا مانگتے رہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہو خوش رہے، سلامت رہے۔ بس یہی دعا ہر روز دل کو جلائے جاتی ہے، یہی خلش ہر سانس کے ساتھ گھلتی جاتی ہے، اور ہم بے بسی کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی ہی کہانی کے سناٹے میں گم ہو جاتے ہیں۔ |