کبھی جون جولائی ہم بھائ بہنوں کے پسندیدہ مہینے ہوا کرتے تھے، صرف اس لئے نہیں کہ گرمیوں کی چھٹیاں بہار بن کے آیا کرتی تھیں بلکہ اس لئے بھی کہ ہم باقاعدگی سے ہر سال جدہ سے کراچی کی طرف اڑان بھرا کرتے کبھی سعودیہ ائر لائنز ، کبھی گلف ائر تو کبھی پی آئ اے کے سنگ۔ پی آئ اے کی بات ہی الگ تھی جس کا سلوگن(اشتہاری نعرہ )
"وطن سے پہلے وطن کی خوشبو"
مجھے مسحور کر دیتا اور میں ہزاروں میل دور سے ہی باغ ۔ دیس میں جا بیٹھتا، یادوں کے پھول توڑتا۔
ادھر ہم جدہ کے آسماں میں گم ہوتے ادھر اورنگی ٹاؤن میں نانا، نانی ہمارے منتظر ہواکرتے تھے۔ پڑوس میں خالہ جان مرحومہ کا گھرانہ اکثر صبح صبح ہمارا استقبال کرتا، خوشی سے سرشار میں ایک ایک دن گنا کرتا اور جب جدائ کے دن قریب آنے لگتے تو یہی گنتی مجھے افسردہ کر دیا کرتی۔تھوڑا ہی آگے رہائش پذیر خالہ امی کے ہاں سے خالہ زاد بھائیوں کی آمد بھی شروع ہو جاتی ، امی کے ماموں زاد بھائ ننھوں ماموں پرتپاک انداز سے ملا کرتے۔
چالیس دن کا چلہء مستی اور وہی بنیان نواز گرمی، وہی دلربا لوڈ شیڈنگ ، پھر بھی ہمارا وہی ذوق و شوق، وہی وطن ، وہی آم، وہی پی ٹی وی ، وہی محلے کی کرکٹ اور وہی کزنز کے ساتھ شغل میلےـ
پھر ایک دن مجھے لوٹنا پڑا ۔ انٹر کرنے کے لئے میں جدہ سے کراچی آیا تو اورنگی ٹاؤن میں نانا نانی کے ہاں قیام۔یادگار کیا۔ خالہ جان اور خالو جان کے ذمے ہماری شکم پری کی ذمہ داری تھی جو انہوں نے بخوبی نبھائ_ باقی میرا پڑھنا وڑھنا، سونا وونا وغیرہ دو خاموش بزرگ انسانوں کے درمیان، کبھی دوسرے کبھی تیسرے کمرے میں۔
نانا نانی سادہ مزاج سادات تھے۔ آپس میں بھی کم بات کیا کرتے۔ دراصل طویل رفاقت کے بعد خاموشی بصورت پُل مضبوطی کے ساتھ کھڑی تھی۔ نانی بڑھاپے میں بھی نانا کی خدمت میں لگی رہتیں۔( ہماری امی میں بھی نانی کی یہی عادت پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہوئ۔) نانا اسی پچاسی کے پیٹے میں ہوں گے، ایک دفعہ دیکھا کہ ایک زندہ مرغا لے کر آئے اور لطف کام و دہن کے لئے نانی کے حوالے کیا۔ نانی سراپا اطاعت شعار۔ نانا کے انتقال کے چند برس بعد راہئ عدم ہوئیں ، آسودہء خاک ہوئیں۔
نانا رزق۔حلال کے عادی، پیرانہ سالی کے باوجود صبح سویرے اور سر۔شام دو دو مرتبہ باقاعدگی سے اپنی دکان کی طرف خراماں خراماں بڑھتے، سر پر سیاہ جناح کیپ ٹائپ ٹوپی ،سفید کرتہ پاجامہ اور واسکٹ میں ملبوس، ہاتھ میں عصا بلکہ جادو کی چھڑی ، بزرگی میں بھی تقریبا ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کرا دینے والی۔ ہمارے نانا تہجد گزار تھے، ایک رات عبادت کے لئے اٹھے تو فالج کے بستر پر گر پڑے اور آخر کار معبود۔حق سے جا ملے۔ یادیں بس یادیں بس یادیں رہ جاتی ہیں۔
|