ایک موبائل فون کے بدلے ایک جان؟
(Iftikhar Ahmed, Karachi)
ایک موبائل فون کے بدلے ایک جان؟
سورۃ النساء (آیت 93) کے تناظر میں اسٹریٹ کرائم کی سنگینی اور اسلامی تعلیمات
دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب نے انسانی جان کو عزت و حرمت دی ہے، مگر اسلام نے انسانی جان کی حرمت کو جس انداز میں بیان کیا ہے، وہ بے مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بارہا انسانی جان کو قتل کرنے کی مذمت کی ہے، خاص طور پر سورۃ النساء کی آیت 93 میں:
"اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اور اللہ اس پر غضب ناک ہوا، اور اس پر لعنت کی، اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔" (سورۃ النساء: 93)
یہ آیت صرف ایک قانونی سزا کا اعلان نہیں بلکہ ایک الٰہی انتباہ ہے، جو بتاتی ہے کہ کسی بے گناہ انسان کو جان بوجھ کر قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابلِ معافی جرم ہے۔
آج کا منظرنامہ: جان کی قیمت — ایک موبائل فون؟
ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی زوال انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ بڑے شہروں میں ہر روز یہ خبریں عام ہو گئی ہیں:
نوجوان لڑکوں کو موبائل چھیننے کے دوران گولی مار دی گئی
بزرگ شہریوں کو چند روپے کے لیے زخمی کر دیا گیا
عورتوں سے زیور یا بیگ چھیننے کے دوران مزاحمت پر جان سے مار دیا گیا
ایک معمولی موبائل فون — جو شاید چند دنوں میں خراب ہو جائے، جسے بیچ کر بمشکل کچھ پیسے ملیں — اس کی خاطر کسی ماں کا بیٹا، کسی بچے کا باپ، کسی بہن کا بھائی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے؟
قرآن کا سخت اعلان: قتل = اللہ کا غضب + جہنم
سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 کو غور سے دیکھیے: اس میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں:
1. ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا 2. اللہ کا غضب 3. اللہ کی لعنت 4. دردناک عذاب
اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لعنت کسی بھی مومن کے لیے بدترین انجام ہے، لیکن یہاں وہ شخص جس نے ایک مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو، اس کے لیے یہ سزائیں اکٹھی کر دی گئی ہیں۔
سورۃ المائدہ کا فرمان: قتلِ ناحق = انسانیت کا قتل
> "جس نے کسی ایک انسان کو بغیر وجہ کے قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔" (سورۃ المائدہ: 32)
ایک موبائل فون کے بدلے کسی کو قتل کرنا نہ صرف ایک فرد کو ختم کرنا ہے، بلکہ یہ پورے معاشرے کے لیے دہشت، خوف، بے اعتمادی اور انتشار پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا ہے۔
نوجوانوں کے لیے لمحۂ فکریہ
آج کل بہت سے نوجوان گینگ، منشیات اور آسان دولت کی لالچ میں مبتلا ہو کر اسٹریٹ کرائم کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چند سیکنڈ میں موبائل چھین کر یا جیب کاٹ کر "پیسہ" کما لیا جائے، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ:
وہ ایک انسان کی قیمتی زندگی چھین رہے ہیں
وہ اپنے لیے دنیا اور آخرت کی تباہی خرید رہے ہیں
ان کے ماں باپ کی عزت، نیک نامی، اور سکون برباد ہو رہا ہے
معاشرے کی ذمہ داری
یہ مسئلہ صرف حکومت یا پولیس کا نہیں، بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے:
1. تعلیم و تربیت: بچوں کو بچپن سے سکھایا جائے کہ انسان کی جان قیمتی ہے، اور کسی کا مال چھیننا ظلم ہے۔
2. اسلامی شعور: نوجوانوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں انسانیت کا احترام سکھایا جائے۔
3. قانونی عمل داری: حکومت سخت قوانین بنا کر فوری سزائیں دے، تاکہ مجرموں کو عبرت حاصل ہو۔
4. سوشل میڈیا اور مساجد کا کردار: خطباتِ جمعہ، سوشل میڈیا اور درسی کتب کے ذریعے اس موضوع پر مسلسل بات کی جائے۔
نتیجہ: ایک موبائل فون کی قیمت... ہمیشہ کی جہنم؟
جب ایک نوجوان مجرم عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے تو اکثر کہتا ہے: "مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک موبائل کے لیے کسی کو مارنے کا انجام یہ ہو گا۔"
لیکن تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے — ایک انسان مر چکا ہوتا ہے، ایک ماں کی گود اجڑ چکی ہوتی ہے، اور ایک قاتل اپنے لیے اللہ کا ہمیشہ کا غضب، لعنت اور عذاب تیار کر چکا ہوتا ہے۔
|
|