معروف ادیب ذوالفقار علی بخاری کا دل چسپ انٹرویو

تحریر وملاقات.. عیشا صائمہ.. ٹیکسلا.. پاکستان
آپ کو ایک ایسی شخصیت سے متعارف کرانے جا رہی ہوں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو نہ صرف پہچانا بلکہ مسلسل محنت سے خود کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ سرحد پار بھی بہت بہترین انداز میں منوایا۔ان کاافسانوی مجموعہ "قسمت کی دیوی" انڈیا میں شائع ہو چکا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سرحد پار بھی اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ تبصرہ نگاری، کالم نگاری، کہانی نویسی اورمصاحبہ کاری میں اپنی انفرادیت دکھانے والے ذوالفقار علی بخاری کے پاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات و رسائل اورویب سائٹس پر مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں۔ ماہ نامہ جگنو، ماہ نامہ بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، ساتھی، بقعہ نور، پیغام، مسلمان بچے، ہلال فار کڈر، بچوں کا میگزین، شاہین اقبال ڈائجسٹ ذوق و شوق، سہ ماہی باغیچہ اطفال، انوکھی کہانیاں اورکئی اخبارات میں تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ماہنامہ”سچی کہانیاں“، ماہ نامہ ”ردا ڈائجسٹ“ اورماہ نامہ”سرگزشت“ جیسے معیاری رسائل میں بھی لکھا ہے۔ماہ نامہ انوکھی کہانیاں،کراچی کے اگست 2021کے شمارے میں ان کی آپ بیتی شائع ہو چکی ہے۔ سہ ماہی کتابی سلسلے”سرائے اردو“ اور”باغیچہ اطفال“ کے مدیر اعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ کی ادبی کاوشوں اور ادبی خدمات پر بہت سے ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ ان میں فضیلت جہاں گولڈ میڈل 2023ء، الوکیل کتاب ایوارڈ 2023ء،چلڈرن لٹریری ایوارڈ 2022ء(بطور بہترین انٹرویو نگار)،علامہ اقبال گولڈ میڈل، 2022ء، ادب اطفال ایوارڈ 2021ء اورادب اطفال ایوارڈ 2022ء قابل ذکر ہیں۔ان کی کامیابیوں کا سلسلہ بہت شاندار طریقے سے جاری و ساری ہے۔ خودنوشت ”جی دار“، بچوں کے لیے آخری وار، تلاش گمشدہ کے نام سے ناولز، تشہیرکہانی(تشہیری کہانیوں کا مجموعہ)، کٹی پتنگ(ڈرامہ) اورعالمی ادیب اطفال اردوڈائریکٹری اورخاتم النبین ﷺ جیسی کتب منظرعام پر بطور مرتب/مدیر لا چکے ہیں۔نیشنل بک فاؤنڈیشن سے بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ”ہوائی چپل کی سیر“ حال ہی میں منظرعام پر آیا ہے۔
محترم ذوالفقار علی بخاری سے ہونے والی ملاقات کی روداد قارئین کی نذر ہے۔
٭…………٭
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے کسی کو گرانا ضروری ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: گرانے والے بھی گریں گے، لوگ کاش یہ سمجھ پاتے۔ کسی بھی شعبے میں دوسروں کو نیچے گرانا بدترین عمل ہے۔ میں اِس کے حق میں نہیں ہوں۔
٭…………٭
کیا وقت کے ساتھ اپنے آپ کو مثبت انداز میں بدلنا اچھا ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: جس دن انسان کے اندر مثبت سوچ بیدار ہوتی ہے اسی روزسے بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ جن کو وقت کے ساتھ بدلنے کی عادت نہیں ہوتی، وہ ایک دن بہت تکلیف میں آجاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ مثبت سوچ کے تابع ہو کر خود کو بدلنا چاہیے، یہ بہت فائدہ مند ہے۔
٭…………٭
کبھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا؟
ذوالفقار علی بخاری: ایسے افراد پر توجہ مرکوز نہیں رکھتا ہوں جو بلاوجہ طنز و تنقید کرتے ہیں۔میں اپنے کام پر نظر رکھتا ہو ں کہ تنقید تب ہی ہوتی ہے جب آپ کچھ زیادہ اچھا کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے افراد ملتے رہتے ہیں جو دل میں کچھ اورزبان پر کچھ رکھتے ہیں۔ اُن کو اُنھی کی سوچ کا پھل ملے گامجھے میری نیت کا پھل ملتا ہے۔جو ہمارا کام پسند نہیں کرتے ہیں وہ پزیرائی دینے سے دور رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں ایسے احباب کو نظروں میں رکھتا ہوں اوراُن کی تنقید کو مثبت انداز میں لیتا ہوں اورنظر انداز کر دیتا ہوں تاہم مناسب وقت پر حقائق سامنے لاناضروری سمجھتا ہوں۔کامیاب افراد پر تنقید ہوتی ہے جو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں بھلا ناکام افراد پر کون انگلیاں اُٹھاتا ہے۔
٭…………٭
آپ دوسروں کو اپنے ساتھ لے کرچلتے ہیں تو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا میری برسوں پرانی عادت ہے۔میں جانتا ہوں کہ ایک ساتھ کامیابی حاصل کرنا کتنا ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کو آگے بڑھانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ اپنی بہترین کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
٭…………٭
ایک ادیب کو کیسا ہونا چاہیے؟ کیا حسد، تکبر کسی ادیب کو زیب دیتا ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: میں اُسے ایک ادیب کے طور پر قبول نہیں کروں گا جو حسد یا تکبر میں مبتلا ہوگا، وہ اور کچھ ہوگا کم سے کم ادیب نہیں ہوگا۔
٭…………٭
ادبی سفر میں تنقید برائے تنقید کو اچھا سمجھتے ہیں یا تنقید برائے اصلاح؟
ذوالفقار علی بخاری: دونوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے،اصلاح کی حامل تنقید نکھار لاتی ہے۔
٭…………٭
پہلی تحریر کب شائع ہوئی اور اس پر سب سے زیادہ پذیرائی کس نے کی؟
ذوالفقار علی بخاری: والدین سے بڑھ کر کون پزیرائی دے سکتا ہے۔میر ے والد ظہور احمد بخار ی مرحوم بہت خوشی کا اظہار کرتے تھے۔اب والدہ کو بہت خوشی ہوتی ہے۔بچوں کے لیے اولین تحریر ماہ نامہ ”ہمدرد نونہال“، کراچی میں شائع ہوئی تھی۔جس پر انعامی کتاب بھی ملی تھی اِس بات کو کئی برس گزر چکے ہیں بڑوں کے لیے پہلی تحریر2007میں روزنامہ کائنات،بھاولپور میں شائع ہوئی تھی۔
٭…………٭
آپ نے بچوں کے لئے لکھنے کا آغاز کب کیا؟
ذوالفقار علی بخاری: یہ2019کی بات ہے جب بچوں کے لیے تسلسل کے ساتھ لکھنے کا سوچا اورخوش نصیبی یہ ہے کہ اولین تحریر ماہ نامہ پھول،لاہور کی زینت بن گئی تو پھر مسلسل لکھنا شروع کردیا تاکہ بچوں کی شخصیت سازی میں اپنا کردار ادا کر سکوں۔چوں کہ تعلیم کے شعبے سے وابستگی رہی ہے تو اِسی وجہ سے نونہالوں کے لیے لکھنا کچھ مشکل محسوس نہیں ہوتا ہے۔بچوں کے رسالے میں اولین تحریر تو بس لکھنے کے شوق پردی تھی اوریہ ماہ نامہ ہمدد نونہال میں شائع ہوئی تھی۔ابھی سال یاد نہیں ہے لیکن تب بچوں کے لیے لکھنے کا خیال نہیں تھا بس کچھ لکھنے کا شوق تھا کہ لکھوں۔ بعدازاں ایک غیرمعیاری کہانی کو بچوں کے رسالے میں پڑھ کر فیصلہ کیا تھا کہ مجھے بچوں کے لیے مستقل لکھنا چاہیے۔
٭…………٭
اب تک آپ کی کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں؟
ذوالفقار علی بخاری: قسمت کی دیوی(افسانوی مجموعہ)، جی دار(خود نوشت)، بچوں کے لیے ناولز تلاش گمشدہ، آخری وار اورتشہیرکہانی(تشہیری کہانیوں کا مجموعہ) اب تک سامنے آچکی ہیں۔ بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ایک معروف پبلشر کے پاس جا چکا ہے۔ دیکھیں کب تک شائع ہوتا ہے۔عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری کو منظرعام پر لایا ہوں جس کا بنیادی مقصد بچوں کے حیات ادیبوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھیں تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنا ہے۔ایک نئے ناول پر بھی کام کر رہا ہوں، یقین ہے کہ 2025میں منظرعام پر آئے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ
٭…………٭
آپ نے ناول”آخری وار“ کس چیز سے متاثر ہو کر لکھا؟
ذوالفقار علی بخاری:مجھے پاک فوج سے بے پناہ محبت تھی اور اِسی چیز نے ناول لکھنے پہ مجبور کیا اور میں نے اِسے منفرد انداز میں لکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اب تک قارئین کی طرف سے مثبت اور اچھی آراء سننے کو مل رہی ہیں۔
٭…………٭
آپ کو سوانح عمری”جی دار“ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
ذوالفقار علی بخاری: جب میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی کے واقعات کسی کو بہادری سے جینا سکھا سکتے ہیں۔ اُسی لمحے میں نے خود کو سب کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اپنے بارے میں سچ لکھنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن دوسروں کی سوچ بدلنے کے لیے یہ مشکل قدم اٹھایا۔ پھر بھی بہت سے دوستوں نے کہا کہ آپ نے اپنی سوانح عمری بہت جلد لکھ لی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے وہی کیا جو میرا دل کہتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ خود نوشت نے کئی مایوس افراد کو حوصلہ دیا ہے جو میرے لیے باعث اعزاز ہے۔کئی احباب کے بقول یہ ایک گائیڈ بک ہے جو ادب اطفال میں قدم رکھنے والوں کو بہت کچھ سمجھا سکتی ہے۔آپ بیتی میں اگرسچ نہیں ہے تو اُس کے لکھنے کا مقصد سستی شہرت ہوگا وہ کسی کے لیے مشعل راہ نہیں بن سکے گی اورنہ ہی قارئین میں مقبولیت حاصل کر پائے گی۔
٭…………٭
ادبی خدمات پر اب تک کتنے ایوارڈ ملے ہیں؟
ذوالفقار علی بخاری: میرے لیے سب سے اہم ایوارڈ قارئین کی پسندیدگی ہے۔ کئی اداروں نے ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے ایوارڈز دیے ہیں۔پاکستان میں سرکاری سطح پر ہونے والی اولین ادب اطفال کانفرنس کا پہلا مقالہ پڑھناکسی اعزاز سے کم نہیں ہے،دوسری طرف سرکاری ادارے نیشنل بک فاؤنڈیشن سے اولین کتاب کی اشاعت کسی بڑے ایوارڈ سے کم نہیں ہے۔یہ اعزاز پہلے کسی ادیب الاطفال کو حاصل نہیں ہوا ہے یہی میرے لیے زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے۔
٭…………٭
ادبی سفر میں کسی نے رہنمائی بھی کی؟
ذوالفقار علی بخاری: ادبی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آیا ہوں۔ مختلف معاملات پر بہت سے ادیبوں سے رہنمائی ملی ہے۔اِن کی فہرست طویل ہے سب نے بہت کچھ سیکھنے کو دیا اِس لیے کسی ایک کا نام نہیں لے سکتا ہوں۔
٭…………٭
اپنے ملک کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی آپ کو بہت پذیرائی ملی ہے؟ کیسا لگتا ہے کہ آپ بطور پاکستانی اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں؟
ذوالفقار علی بخاری: مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔جب ملک کا نام روشن ہوگا تو کسے فخر نہیں ہوگا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اپنے ہی بیرون ممالک میں پذیرائی پر اعتراض کرتے ہیں اورکچھ کردار کشی کرنے پر مائل ہو جاتے ہیں۔
٭…………٭
کن موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند ہے؟
ذوالفقار علی بخاری:ہر طرح کے موضوع پر لکھنا پسند ہے۔
٭…………٭
خواتین کے معاشرتی مسائل کو بھی آپ نے اپنا موضوع بنایا. بتائیے دونوں یعنی میاں بیوی کے رشتے میں دراڑ کی اصل وجہ کیا ہے؟
ذوالفقار علی بخاری:میرے خیال میں اعتماد کی کمی بہت کچھ خراب کرتی ہے یہی دراڑ کی اہم وجہ ہے۔اِس کے علاوہ جب دو فریقین کے بیچ تیسرا آتا ہے تو معاملات خراب تر ہوتے ہیں اوراکثر تعلق ٹوٹنے کی وجوہات تلاش کی جائیں تو یہی عنصر لازمی دکھائی دیتا ہے۔
٭…………٭
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مردوعورت انفرادی طور پر ایک الگ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان دونوں کے رویوں میں لچک کے عنصر کا ہونا کتنا ضروری ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: بالکل۔۔۔ کسی بھی رشتے کو قائم رکھنے کے لیے لچک ہونا بے حد ضروری ہے۔اتنی تو ضرور ہونی چاہیے کہ تعلق جڑا رہے اورآ پ خوش گوار زندگی بسر کر سکیں۔
٭…………٭
اپنے وطن سے محبت کا تقاضا کیا ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: وطن سے محبت سب کو ہوتی ہے۔ لیکن وطن کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم اچھے مستقبل کے لیے وطن سے باہر جاتے ہیں اورپھر کہتے ہیں یہاں بہت کچھ خراب ہے۔وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ یہاں آئیں اور پھرجو خرابی ہے وہ دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
٭…………٭
شہرت کے بعد مزاج میں کوئی تبدیلی آئی؟
ذوالفقار علی بخاری: ادبی دوست اِس بات کے گواہ ہیں کہ میں جیسا پہلے تھا آج بھی ویسا ہی ہوں۔ مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ کچھ خاص کام کر رہا ہوں اِسی وجہ سے اپنی ذات میں بھی کوئی خاص تبدیلی رونما ہوتے نہیں دیکھی ہے۔
٭…………٭
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہارنا بھی انسان کو پھر سے کھڑا کرنے کے لئے ضروری ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: ہار ہی کامیابی کی جانب پھر سے چلنے پر اکساتی ہے،کبھی کبھی ہارنا ہمیں بہترین کامیابی دلواتا ہے۔
٭…………٭
بچوں کی نفسیات کو بھی آپ بہت بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ یہ بتائیں گھر سے بچوں کو اعتماد ملنا کتنا ضروری ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: بچوں کو اعتمادمل جائے تو پھر وہ گھر سے باہر سب کو بہترین انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ والدین بچوں پر توجہ کم دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بگڑ رہے ہیں۔بچوں کو اُن کی حدود وقیود بتانا چاہیے تاکہ وہ اپنی حدسے باہر جانے کی ضد نہ کریں۔بچوں میں اگراعتماد ہوگا تو وہ بہترین کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
٭…………٭
والدین سے رشتہ کیسا رہا؟ خصوصاً ماں کے ساتھ کیسا ریلیشن شپ ہے؟ اور آپ کیا سمجھتے ہیں والدین کی شخصیت کس حد تک بچوں کو متاثر کرتی ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: مجھے کامیابی والدہ کے اعتماد کے بدولت حاصل ہوئی ہے۔ میرا تعلق دوستانہ ہے اورتمام والدین کو بچوں کے ساتھ ایسا ہی تعلق رکھنا چاہیے۔ میرے والد صاحب خود ہر جگہ لے جاتے تھے تاکہ ہم میں اعتماد آئے اوریہی وجہ ہے کہ مسائل سے نمٹنا آگیا ہے کہ والدین نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔
٭…………٭
محبت پہ یقین رکھتے ہیں؟ اگر رکھتے ہیں تو بتائیے کہ زندگی میں اس کا کتنا عمل دخل ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: محبت کے بنا انسان کی زندگی صحرا محسوس ہوتی ہے،یہ محبت ہی ہے جو ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔
٭…………٭
ادبی سفر میں آپ بہت سے نئے آنے والوں کی درست سمت میں رہنمائی کرتے ہیں،ان کی کامیابیوں پہ کیسالگتا ہے؟
ذوالفقار علی بخاری: ایک استاد اپنے شاگرد کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے اورمیں بھی مسرت کن جذبے سے سرشار ہوں کہ وہ آگے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔اِن کی کامیابیاں میری اپنی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کی کامیابی کو اپنا سمجھتے ہیں۔
٭…………٭
ادبی دنیا میں نئے لکھنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہئیں گے؟
ذوالفقار علی بخاری:اپنی قابلیت کو اپنی طاقت بنا کر رکھیں اورکسی سے نہ ڈریں۔ اگر آپ قابل ہیں تو آپ کو ایک دن ضرور کامیابی ملے گی۔ اِس لیے کبھی حوصلہ نہ ہاریں اوردوسروں کے نظرانداز کرنے کو دل ودماغ پر سوار نہ کریں۔
٭…………٭
قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ذوالفقار علی بخاری: اگر کوئی آپ کی آواز بن کر آپ کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے تو اسے کبھی تنہا نہ چھوڑیں۔ کیوں کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو بہت سے لوگوں کی جانیں جائیں گی، اِس لیے سچے لوگوں کا ساتھ دیں۔اپنے مفادات کی خاطر سچائی کی جنگ لڑنے والوں کو اکیلا مت کریں۔
۔ختم شد۔

 

Esha Saima
About the Author: Esha Saima Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.