"کسی کو کم تر نہ سمجھیں "

زندگی تجربات کا نچوڑ ہے، زندگی کے کٹھن سفر میں کبھی بھی کسی کو بھی اپنے سے کم نہیں سمجھنا چاہیے ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتا ہے ۔!
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
سفر زندگی کا ہو یا ریل کا، ہم میں سے اکثر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ڈگریاں ہی علم کی معراج ہوتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں کتاب ہو، یا نام کے ساتھ "پروفیسر" یا "ڈاکٹر" لگ جائے، تو ہم فوراً متاثر ہو جاتے ہیں، اور سامنے والے کے ہر عمل کو عقل و شعور کی بلند ترین سطح سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ سادہ لوح، ان پڑھ، یا "دیہاتی" سمجھے جانے والے افراد بھی زندگی کے ایسے سبق رکھتے ہیں، جو کسی یونیورسٹی کے نصاب میں نہیں پڑھائے جاتے؟
یہی حقیقت ایک دلچسپ قصے میں سامنے آتی ہے، جہاں ایک پروفیسر اور ایک کسان ایک ساتھ ریل کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے علم کے غرور میں ایک سادہ دل کسان کو ایک کھیل کے ذریعے نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ مگر انجام ایسا ہوتا ہے کہ سارا علم اور غرور کسان کی فطری ذہانت اور حاضر دماغی کے سامنے پانی مانگتا دکھائی دیتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک پروفیسر اور کسان ایک ساتھ ریل میں سفر کررہے تھے۔ سفر کی بوریت دورکرنے کیلئے پروفیسر نے کسان سے کہا کہ چلو ہم ایک کھیل کھیلتے ہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے سوال پوچھیں گے جس کو سوال کا جواب معلوم نہ ہوگا، وہ سو روپیہ دے گا۔ (پروفیسر کو یقین تھا کہ یہ بیچارہ کسان میرے مقابلے میں کیا جانتا ہو گا)۔ کسان نے کہا ٹھیک ہے لیکن میری گزارش ہے کہ آپ پروفیسر ہیں، بہت کچھ جانتے ہیں میں ان پڑھ غریب کسان ہوں اگر آپ کو کسی سوال کا جواب نہ آتا ہو تو آپ سو روپے دیں گے اور اگر مجھے کسی سوال کا جواب نہ آتا ہو تو میں پچاس روپے دوں گا۔ پروفیسر نے بخوشی منظور کر لیا۔ پہلا سوال کسان نے کیا کہ وہ کون سے چیز ہے جو زمین پر چلتی ہے تو دو ٹانگ پر اور ہوا میں اڑتی ہے تو اس کے تین پیر ہوجاتے ہیں۔ پروفیسر نے بہت سوچا، لیکن کوئی جواب نہ دے پایا اور اس کے بعد خاموشی سے ایک سو روپیہ کسان کی طرف بڑھا دیا اور کہا کہ مجھے جواب نہیں آتا کسان نے سو روپیہ لے کر رکھ لیا۔ پروفیسر نے کہا کہ اب تم اس سوال کا تو جواب بتاؤ کسان نے پچاس روپے پروفیسر کی طرف بڑھا دیئے اور کہا کہ اس سوال کا جواب مجھے بھی نہیں آتا۔
یہ واقعہ بظاہر ایک مذاق لگتا ہے، لیکن دراصل اس میں علم، فہم، اور حقیقت پسندی کا ایک مکمل سبق چھپا ہے۔ کسان نے نہ صرف پروفیسر سے دوگنی رقم حاصل کی، بلکہ یہ بھی جتا دیا کہ علم صرف کتابوں میں نہیں ہوتا، بلکہ عقل، فطری ذہانت، اور حالات کا درست ادراک بھی ایک انسان کو دوسروں سے بہتر اور باشعور بنا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر ہم تعلیم کو ایک "اعزاز" کے بجائے "غرور" کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ ہم کسان، مزدور، اور معمولی کپڑوں میں ملبوس افراد کو کمتر سمجھتے ہیں۔ ان کے تجربے، مشاہدے، اور فہم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ وہی لوگ میدانِ زندگی کے اصل کھلاڑی ہوتے ہیں، وہ علم جو انہوں نے مٹی، دھوپ، اور پسینے سے سیکھا ہوتا ہے، اکثر کتابی علم سے زیادہ مؤثر اور حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ! انسان کو کبھی بھی کسی کی ظاہری حیثیت دیکھ کر کم تر نہیں سمجھنا چاہیے، علم کا مطلب غرور نہیں، انکساری ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ، زندگی صرف "کتابوں" سے نہیں، بلکہ "تجربات" سے بھی سیکھی جاتی ہے۔ لہٰذا، اگر ہم واقعی باشعور بننا چاہتے ہیں تو ہمیں "پڑھے لکھے" کے ساتھ "سمجھ دار" اور "بردبار" بھی بننا ہوگا۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی کسان ہمیں پچاس روپے دے کر سکھا جائے کہ اصل دانش کہاں ہوتی ہے!

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 132 Articles with 81797 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.