میں شرمندہ ہوں
(Babar Alyas , Chichawatni)
میری رحمت میں شرمندہ ہوں! تحریر ۔۔۔۔بابرالیاس
شیتل... ایک معصوم خواب دیکھنے والی، روشنی کی آرزومند آنکھوں والی، وہ بلوچستان کی خاندانی روایات میں خاموش ہو گئی ، جہاں پہاڑوں کی عظمت تو ہے، مگر عورت کی خواہشوں کے لیے زمین تنگ ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہی تھی جہاں خاندان کی عزت، عورت کی زندگی سے زیادہ قیمتی سمجھی جاتی ہے۔
شیتل کو مار دیا گیا۔ مار دیا گیا صرف اس لیے کہ اُس نے جینے کی خواہش کی، محبت کی، اپنے حق میں ایک آواز بلند کی۔ اُس کے خون کو "غیرت" کا رنگ دے کر دھو دیا گیا، مگر دراصل یہ قتل صرف ایک کمزور مردانہ انا کی بھینٹ چڑھا تھا۔ شیتل کو دفنا دیا گیا، مگر اُس کے ساتھ دفن ہو گئیں اُس کی خواہشیں، اُس کے خواب، اُس کا وجود۔
وہ جو کبھی آسمان کے نیلے پن کو چھونے کی تمنا رکھتی تھی، آج مٹی میں دفن ہے، خاموش ہے، سرد ہے۔
یہ صرف شیتل کی کہانی نہیں — یہ بلوچستان کی بہت سی بیٹیوں کی کہانی ہے،جنہیں غیرت کے جھوٹے دعووں میں بےرحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ ہر بار، قاتل فخر سے سر اُٹھا لیتا ہے اور معاشرہ خاموش تماشائی بن کر جرم کا حصہ بن جاتا ہے۔
شیتل کو انصاف نہیں ملا، کیونکہ اُس کا خون اُس کے اپنوں نے بہایا۔ اور جس زمین پر اُس کا لہو گرا، وہاں کوئی چراغ روشن نہیں ہوا، کوئی ماتم نہیں بپا ہوا، صرف سناٹا تھا... اور ہے۔
لیکن یاد رکھو — شیتل کی خاموشی چیخ بن کر گونجے گی۔ اُس کی قبر احتجاج بنے گی۔ اُس کا نام سوال بن کر ہر غیرت کے ٹھیکے دار کو بے نقاب کرے گا۔
ہمیں اب یہ سوال اٹھانا ہوگا: کیا غیرت عورت کے خون سے لکھی جاتی ہے؟ کیا خاندان کی عزت اتنی ناپختہ ہے کہ وہ ایک عورت کی زندگی سے قائم ہوتی ہے؟ اور کب تک ہم خاموش رہیں گے؟ کب تک؟
شیتل مر گئی... لیکن شاید وہ ہم سب کو جگا گئی۔ کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم غیرت کے نام پر ہونے والے ہر قتل کے خلاف آواز بلند کریں — ورنہ کل کی شیتل کوئی اور ہو سکتی ہے، کوئی اور بیٹی، کوئی اور بہن... اور شاید ہماری اپنی۔۔۔۔۔!
|
|