اونٹوں کی تخلیق "زندہ معجزہ "

اونٹ کوئی عام جانور نہیں، بلکہ وہ ایک زندہ معجزہ ہے، ایک ایسی مخلوق جسے اللہ تعالیٰ نے مخصوص ماحول، مخصوص حالات اور مخصوص مقاصد کے لیے نہایت حیرت انگیز انداز میں تخلیق فرمایا ہے۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
دنیا بھر میں قدرت کی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ درختوں کی شاخوں سے لے کر آسمان کی وسعتوں تک، پہاڑوں کی چوٹیاں ہوں یا سمندروں کی گہرائیاں، ہر منظر انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ انہی نشانیوں میں ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز مخلوق "اونٹ" بھی ہے، جسے قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے:
"اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْ" (سورۃ الغاشیہ، آیت 17)
"کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟"
یہ سوال نہیں بلکہ غور و فکر کی ایک صدا ہے، ایک ایسی پکار جو انسان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتی ہے۔ اونٹ کوئی عام جانور نہیں، بلکہ وہ ایک زندہ معجزہ ہے، ایک ایسی مخلوق جسے اللہ تعالیٰ نے مخصوص ماحول، مخصوص حالات اور مخصوص مقاصد کے لیے نہایت حیرت انگیز انداز میں تخلیق فرمایا ہے۔ یہ کالم اونٹ کی حیرت انگیز تخلیق، سائنسی عجائبات اور قرآنی اشارات پر روشنی ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
دنیا میں بیشتر جاندار کھارے یا نمکین پانی سے دور رہتے ہیں کیونکہ نمک کی زیادتی جسمانی نظام کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔ مگر اونٹ ان چند جانوروں میں شامل ہے جو انتہائی کھارے پانی کو نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ اس سے اپنی پیاس بھی بجھاتے ہیں۔ صحرائی علاقوں میں جہاں میٹھے پانی کے ذخائر نایاب ہوتے ہیں، اونٹ کھارے کنوؤں یا نم آلود ذرائع سے پانی حاصل کرتا ہے۔
اونٹ کے گردے (kidneys) قدرت کی ایسی لیبارٹری ہے جو پانی کو نمک سے علیحدہ کر کے جسم میں صرف صاف اور مفید مائع کو داخل کرتے ہیں، جبکہ اضافی نمک پیشاب کے ذریعے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اونٹ کا پیشاب انتہائی مرتکز (concentrated) ہوتا ہے تاکہ جسم میں پانی کا ضیاع کم سے کم ہو۔ سائنسی تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اونٹ جسم میں پانی کی کمی کو دیر تک برداشت کر سکتا ہے، اور جب پانی دستیاب ہو تو وہ ایک نشست میں 100 سے 150 لیٹر تک پانی پی جاتا ہے۔ یہ مقدار کسی بھی دوسرے جاندار کے مقابلے میں بے حد زیادہ ہے۔
ایک مبالغہ ہے کہ اونٹ مردار سمندر (Dead Sea) جیسا انتہائی نمکین پانی بھی پی سکتا ہے، سائنسی طور پر درست نہیں۔ مردار سمندر کا پانی اتنا نمکین ہوتا ہے کہ کسی بھی زندہ مخلوق کے لیے پینا ممکن نہیں۔ تاہم عام سمندری یا کھارے پانی کے مقابلے میں اونٹ کی برداشت کئی گنا زیادہ ہے، جو اس کے حیاتیاتی نظام کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔
کھانے کے معاملے میں بھی اونٹ منفرد جانور ہے، صحرا میں سبزہ نہیں، پھول نہیں، نرم و نازک پتے نہیں۔ جو کچھ ہے، وہ کانٹے دار جھاڑیاں، سخت اور خشک پودے، اور جھلسا دینے والی ریت۔ ایسے ماحول میں دیگر جانور تو بھوک سے مر جائیں، مگر اونٹ ان ہی کانٹوں اور جھاڑیوں کو ایسے چباتا ہے جیسے وہ نرم روٹی ہو۔
اس کا منہ اندر سے ایک خاص ساخت رکھتا ہے، جس میں موٹی جلد، سخت جھلیاں اور گاڑھا لعاب پایا جاتا ہے۔ اس کی زبان، ہونٹ اور منہ کے اندرونی حصے نہایت سخت اور جھری دار ہوتے ہیں، جو کانٹوں کو چباتے وقت زخمی نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ اونٹ کا لعاب دہن کھانے کو نرم کرنے اور ہضم میں آسانی فراہم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
صحرائی روایات میں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اگر کسی کے جسم میں کانٹا چبھ جائے تو اونٹ کا لعاب لگانے سے وہ کانٹا نرم ہو کر باہر نکل آتا ہے۔ گو کہ اس بات کی سائنسی توثیق ابھی مکمل طور پر نہیں ہوئی، تاہم اونٹ کے لعاب میں جراثیم کش (antibacterial) خصوصیات موجود ہیں جو روایتی علاج میں استعمال ہو سکتی ہیں۔
صحرا میں طوفان، دھول، گرد و غبار اور ریت کے جھکڑ اونٹ کی روزمرہ کا حصہ ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر وہ ان تمام سختیوں کے باوجود نہ صرف آنکھیں کھلی رکھتا ہے بلکہ بلا تعطل سفر بھی کرتا ہے۔ اس راز کی کنجی اس کی پلکوں میں چھپی ہے۔
اونٹ کی دو پلکیں ہوتی ہیں: ایک عام جو آنکھ کو بند کرتی ہے، اور دوسری شفاف جھلی (nictitating membrane) جو شیشہ کی مانند آنکھ کے اوپر آتی ہے اور اسے گرد و غبار سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہ جھلی آنکھوں کو بند کیے بغیر حفاظت فراہم کرتی ہے، جس کی وجہ سے اونٹ طوفان میں بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پلکوں کے بال نہایت گھنے، لمبے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، جو آنکھوں کو دھول سے بچاتے ہیں۔
انسان اور دیگر جانور اپنی جسمانی حرارت کو محدود حد تک کنٹرول کر سکتے ہیں، لیکن اونٹ اس معاملے میں ممتاز ہے۔ اونٹ دن میں جب درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا ہے، تو اس کا جسمانی درجہ حرارت بڑھنے دیتا ہے تاکہ پسینہ نہ بہے اور پانی محفوظ رہے۔ رات کو جب صحرا ٹھنڈا ہو جاتا ہے، تو اونٹ کا جسمانی درجہ حرارت خود بخود کم ہو جاتا ہے۔ یہ نظام اسے پانی کی کمی اور سخت گرمی سے بچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹ کئی دنوں تک بغیر پانی اور خوراک کے زندہ رہ سکتا ہے، اور سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ اگرچہ اونٹ برفانی علاقوں میں طویل عرصہ نہیں گزار سکتا، مگر تھوڑی سردی میں بھی یہ خود کو ڈھال لیتا ہے۔
اونٹ صرف جسمانی لحاظ سے نہیں بلکہ فطری مزاج میں بھی ایک منفرد جانور ہے۔ وہ اپنی وفاداری، صبر اور خاموشی کے لیے مشہور ہے۔ صحرائی قبائل اسے اہلِ خانہ کی طرح چاہتے ہیں۔ وہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے، اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے اور بوجھ اٹھانے کے باوجود شکوہ نہیں کرتا۔ یہ بات مشہور ہے کہ اونٹ کو اگر تکلیف پہنچائی جائے تو وہ اسے یاد رکھتا ہے اور وقت آنے پر بدلہ لیتا ہے۔ سائنسی تحقیق بھی بتاتی ہے کہ اونٹ کی یادداشت قوی ہوتی ہے۔
اونٹ کی ساخت، صلاحیت، عادات اور فطرت پر غور کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کے پیروں کی بناوٹ، کوہان میں چربی کا ذخیرہ، ریت پر چلنے کی مہارت، لمبی گردن، اور صحرائی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ جسمانی ڈھانچہ سب ایک مکمل تخلیقی شاہکار کی گواہی دیتے ہیں۔ واقعی، ربِ ذوالجلال کی یہ تخلیق انسان کو دعوتِ فکر دیتی ہے:
"اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ؟" کیا وہ عقل نہیں رکھتے؟
"فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ" پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ 
Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 149 Articles with 90010 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.