جھوٹ کی دیوار پر کھڑی ریاست
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
دنیا کی بہت سی ریاستیں تاریخی حادثات کا نتیجہ ہوتی ہیں، کچھ قوموں کی جدوجہد سے وجود میں آتی ہیں، اور کچھ طاقتوروں کے کاغذی فیصلوں سے جنم لیتی ہیں۔ لیکن ایک ریاست ایسی بھی ہے، جو قیام سے لے کر آج تک جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہے۔ وہ ریاست ہے: اسرائیل۔ اسرائیل کا قیام صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک مربوط جھوٹ کا تسلسل ہے — جو تاریخ، مذہب، قانون، اخلاق، اور میڈیا کی چادر میں لپیٹ کر دنیا کو دکھایا گیا۔ صیہونیت کے بانیوں نے ایک جھوٹ پر بنیاد رکھی: "A land without a people for a people without a land" یعنی ’’ایسی زمین جو خالی ہو، ایسی قوم کے لیے جو بے گھر ہو۔‘‘ یہ دعویٰ اس وقت کیا گیا جب فلسطین کی زمین پر لاکھوں عرب باشندے — مسلمان، مسیحی اور یہودی — صدیوں سے آباد تھے۔ 1880 کی دہائی میں فلسطینی عرب اس سرزمین کی 95 فیصد آبادی تھے۔ لیکن صیہونی منصوبہ سازوں نے ان سب کی موجودگی کو نظر انداز کر دیا، گویا وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ 1917 میں برطانوی حکومت نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے لیے "قومی گھر" کا وعدہ کیا — ایسی زمین کا وعدہ، جو نہ ان کی تھی، نہ خالی، اور نہ برطانیہ کو دینے کا اختیار تھا۔ 1948 میں جب اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت دی گئی، تو دنیا نے اسے "آزادی" کہا، مگر فلسطینیوں کے لیے وہ دن نَکبہ (تباہی) کا آغاز تھا۔ تقریباً سات لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا، 500 سے زائد دیہات و شہر مٹا دیے گئے۔ اور جب پوچھا گیا کہ یہ لوگ کہاں گئے؟ تو کہا گیا: "وہ خود چلے گئے!" اسرائیل کی تاریخ میں ہر جنگ کو "دفاعی جنگ" قرار دیا گیا — چاہے وہ 1956 میں مصر پر حملہ ہو، 1967 کی قبضہ گیری ہو، یا آج کا غزہ پر چڑھائی۔ دراصل یہ وہی ریاست ہے، جو پہلے حملہ کرتی ہے، پھر دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کا ڈھول پیٹتی ہے۔ فلسطینی اگر پتھر اٹھائیں تو "دہشت گرد"، اسرائیلی اگر ٹینک چلائیں تو "دفاعی اقدام"۔ صیہونی بیانیہ صرف بندوق سے نہیں، کیمرے اور قلم سے بھی چلتا ہے۔ مغربی میڈیا کا رویہ یہ ہے کہ اسرائیل جب ظلم کرے تو خبریں بنیں: "Clashes between Palestinians and Israeli forces..." یعنی "جھڑپیں ہوئیں"، نہ کہ "اسرائیل نے حملہ کیا"۔ معصوم بچوں کے جنازے "Colleteral Damage" بن جاتے ہیں اور انسانی حقوق محض رپورٹس کی زینت۔ اسرائیل کے قیام کو الہامی حق قرار دینا ایک دھوکہ ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تورات میں خدا نے یہ زمین بنی اسرائیل کو دی تھی، حالانکہ خود بہت سے یہودی علما مثلاً Neturei Karta اس ریاست کو مذہب کی توہین سمجھتے ہیں۔ اسلامی عقیدہ بھی یہی ہے کہ زمین صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو عدل، امن، اور تقویٰ کے راستے پر ہوں نہ کہ ظلم، نسل پرستی اور قتل عام کے۔ اقوامِ متحدہ کی کئی قراردادیں اسرائیل کو غیر قانونی بستیوں، قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ٹھہراتی ہیں۔ لیکن یہ کیسی ریاست ہے جو ہر قانون سے بالاتر ہے؟ کیسا انصاف ہے کہ عالمی عدالت میں عام مجرم تو کھینچا جاتا ہے، لیکن اسرائیل کو پوچھنے والا کوئی نہیں؟ اسرائیل صرف ایک ریاست نہیں، یہ جھوٹ کا ایک مربوط نظام ہے: ایک تاریخی جھوٹ: کہ یہ زمین خالی تھی ایک اخلاقی جھوٹ: کہ فلسطینی خود ہجرت کر گئے ایک قانونی جھوٹ: کہ طاقت ہی حق ہے ایک مذہبی جھوٹ: کہ یہ خدا کی طرف سے دیا گیا ملک ہے اور ایک انسانی جھوٹ: کہ اسرائیل جمہوریت ہے، ظلم نہیں یہ سب جھوٹ ایک ایسی عمارت کی بنیاد بنے جو آج بھی فلسطینی لاشوں، ملبوں، اور آنکھوں میں سمٹے خوابوں پر کھڑی ہے۔ کیا ایسی ریاست، جو آغاز سے انجام تک جھوٹ پر قائم ہو، کبھی پائیدار ہو سکتی ہے؟ کیا ظلم کی دیوار پر کھڑی کوئی ریاست تاریخ کے سامنے سرخرو ہو سکتی ہے؟ اور کیا دنیا ہمیشہ خاموش تماشائی بنی رہے گی؟
|
|