ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( پندرہویں حدیث)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

ہماری زندگی پر احادیث کا اثر
( پندرہویں حدیث )

ہمارے اس سلسلے میں کچھ لمبا وقفہ آگیا ہے جس کی میں معذرت چاہتا ہوں اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم آج پندرہویں حدیث پر آئیں گے کیونکہ اب تک میں چودہ احادیث اور اس کی تفسیر آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کر چکا ہوں ہماری آج کی جو حدیث ہے اسے میں نے احادیث مبارکہ کی معروف کتاب جامع ترمذی سے لیا ہے جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہتے ہیں کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " جب میری امت میں پندرہ خصلتیں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی تو پھر ان پر مصیبتوں کا نزول شروع ہو جائے گا " فرمایا گیا کہ وہ کون کون سی خصلتیں ہیں تو میرے سرکار صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ
1: جب مال غنیمت ذاتی دولت بن جائیگی۔
2: جب امانت کو لوگ مال غنیمت سمجھنے لگیں گے۔
3: جب زکوة کو جرمانہ سمجھا جائے گا۔
4٫5: شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا اور ماں کی نافرمانی کرے گا۔
6٫7: دوستوں کے ساتھ بھلائی اور باپ کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے گا۔
8: مسجد میں لوگ زور زور سے باتیں کریں گے ۔
9: جب ذلیل قسم کے لوگ حکمران بن جائیں گے۔
10: کسی شخص کی عزت اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے کی جائے گی ۔
11: جب شراب عام پی جائے گی۔
12: جب ریشمی کپڑا پہنا جائے گا۔
13٫14: جب گانے بجانے والیاں لڑکیاں اور گانے کا سامان گھروں میں رکھا جائے گا۔
15: جب امت کے آخری لوگ پہلوں پر لعن طعن کریں گے۔
پس اس وقت لوگ عذابوں کے منتظر رہیں یا تو سرخ آندھی یا خسف یا پھر چہرے مسخ ہو جانے والا عذاب۔
( جامع ترمذی 2210)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ کو بغور پڑھنے کے بعد ہر باشعور اور دین کی طرف رغبت پانے والے اہل ایمان کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ کیا ہم اس وقت جس دور سے گزر رہے ہیں یہاں انسانوں میں یہ خصلتیں عام دکھائی نہیں دیتیں؟ آئے ہم ان خصلتوں کے بارے میں کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے جس پہلی خصلت کا ذکر کیا ہے وہ ہے کہ
1." جب مال غنیمت ذاتی دولت بن جائے گی " ۔
اصل میں مالِ غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو جنگ میں فتح کے بعد دشمنوں سے حاصل ہو۔ اس میں قیدی، اسلحہ، اور دیگر سامان شامل ہو سکتے ہیں یہ سب کچھ حضور ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا لیکن اگر ہم اس " مال غنیمت " کو آج کے دور کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مطلب تو وہی ہے لیکن چونکہ اب اس طرح کی جنگیں ہوتی نہیں ہے اور نہ جنگ میں فتح کے بعد سامان کو مال غنیمت سمجھ کر اس کی تقسیم کی جاتی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اب جنگ ختم ہونے پر فاتح کو سارا سامان بشمول قیدی کے واپس کرنا ہوتا ہے اور اب تک اس پر عمل درآمد ہوتا آیا ہے ۔

2. " جب امانت کو لوگ مال غنیمت سمجھنے
لگیں گے ".
یہ معاملہ تو آجکل بہت عام نظر آتا ہے کہ لوگ اپنے عزیزوں، رشتی داروں، دوستوں حتیٰ کہ بینک سے بھی پیسے یعنی قرضہ لیکر واپس نہیں کرتے اور آئے دن گھروں میں ناچاکیاں، لڑائیاں، یہاں تک کہ قتل و غارتگری کے واقعات سننے اور دیکھنے کو ہمیں ملتے ہیں جبکہ امانت میں خیانت کی سزا کے بارے میں قرآن مجید کی کئی سورتوں میں اور احادیث مبارکہ کی کتابوں میں واضح وعید ہمیں نظر آتی ہے مگر لوگ ہمارے یہاں اس امانت کو بھی اپنی ملکیت سمجھ کر یا تو بیفکری سے خرچ کردیتے ہیں یا آپس میں بانٹ لیتے ہیں انجام آخرت سے بیخبر ہوکر لیکن ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ یہ فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ والیہ وسلم تھا لہذہ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی بالکل صحیح اور سچ ثابت ہوا ہے ۔

3 ۔ " جب زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا "
آج کل کے دور میں یقیناً صحیح طریقہ سے اور مستحق افراد تک زکوٰۃ پہنچانے والے لوگوں کی تعداد بہت کم نظر آتی ہے اور یہ بھی بالکل صحیح ہے کہ لوگ زکوٰۃ کو خدا نخواستہ ٹیکس یا زبردستی دینے والی رقم سمجھ کر اس کی ادائیگی سے دور ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے صاف اور واضح الفاظ میں فرمایا کہ

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)

ترجمعہ کنزالایمان: اے محبوب اپنے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔

یعنی زکوٰۃ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اس پر عمل کرنا ہر اہل ایمان مسلمان پر فرض ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ لوگ زکوٰۃ کو بھی اپنی ملکیت سمجھ کر بجائے اسے مستحق لوگوں تک پہنچانے کے اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کرکے فخر محسوس کرتے ہیں جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور آخرت میں ایسے لوگوں کے انجام کے بارے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بڑے واضح بتادیا گیا ہے بات صرف انہیں پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کی ہے لیکن ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان تھا ۔

4 ۔ " شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا "
حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی آج کے دور میں جگہ جگہ دکھائی اور سنائی دیتا ہے ہمارے یہاں مردوں کی ایک کثیر تعداد ہے کہ جب شادی ہو جاتی ہے تو وہ سب کچھ اپنی بیوی کے کرنے پر کرتا دکھائی دیتا ہے وہ رشتے جو بھائی بہن ماں یا باپ کی شکل میں اس کے ساتھ ایک عرصہ سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں انہیں یکدم فراموش کرکے ان کی اہمیت کو نظر انداز کرکے ان کی طرف توجہ کم کر دیتا ہے اور اپنی پوری توجہ اور تعلق اپنی بیوی کے ساتھ قائم کرکے اسے صحیح سمجھنے لگتا ہے جبکہ حقوق العباد میں جو حقوق بیوی کے شوہر پر ہیں وہ حقوق باقی رشتوں کے بھی ہیں لیکن اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کرنے والے ایسے مردوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن ایسا ہونا بھی ضروری تھا کیونکہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان تھا ۔

5 ۔ " بچے ماں باپ کی نافرمانی کریں گے ".
حضور ﷺ کی یہ بات بھی بالکل صحیح اور درست ہے کہ میری امت کے بچے ماں باپ کی نافرمانی کریں گے اور اگر ہم دیکھیں تو واقعی آج کے دور میں بچے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور غالباً یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا میں اولڈ ایج ہوم کی تعداد دن بدن بڑھتی جاری ہے بچہ جب تک اپنے شعور کی پہلی منزل تک نہیں پہنچتا تو ماں باپ ہی اس کے لئے سب کچھ ہوتے ہیں لیکن جب وہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھ دیتا ہے تو پھر وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میرے ماں باپ کی سوچ ان کی عمر کی طرح پرانی ہوگئی ہے اور وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے اس حد تک چلا جاتا ہے کہ نافرمانی پر آ جاتا ہے یعنی اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کردیتا ہے لیکن ایسا ہونا بھی لازمی تھا کہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان تھا ۔

6 ۔ "اپنے دوستوں کے ساتھ بھلائی کرتا ہے "
حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ " میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے دوستوں کے ساتھ ہی بھلائی کریں گے " بھی آج کے دور کے مطابق صحیح اور درست ثابت ہوا کہ ہمارے درمیان بسنے والے لوگوں کی خاص طور پر نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کے ساتھ زندگی کے اہم اور ضروری فیصلے کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اپنی گھریلو زندگی یعنی کاروباری یا ملازمت کے وقت کے بعد جتنا وقت میسر ہوتا ہے وہ زیادہ تر اپنے دوستوں کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ صحیح اور درست مانتے ہیں جبکہ صحیح ، وفادار اور سچے دوستوں کی پہچان انہیں کم ہوتی ہے جبکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ " سچا دوست وہ ہے جو تمہیں گناہوں سے بچائے اور دین کی طرف بلائے" لیکن آپ سب اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کا کوئی ایسا دوست ہے ؟ ایسا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان تھا ۔

7 ۔ " باپ کے ساتھ ظلم وزیادتی کریں گے".
حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی صحیح اور درست ہے یعنی اگر ہم چھٹی خصلت کو اس کے ساتھ ملاتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ " لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جبکہ اپنے باپ کے ساتھ ظلم وزیادتی کرنے لگیں گے " ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ وہ باپ جو اپنی کمائی کا ایک ایک پیسہ ہمارے اوپر خرچ کرکے ہمیں کسی نہ مقام پر پہنچا دیتا ہے اچھے برے حالات ہوں یا کاروباری اونچ نیچ ہو یا ملازم پیشہ باپ اپنی تنخواہ سے ایک ایک پیسہ سنبھال کر ہمارے اوپر خرچ کرکے ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مصروف رہا آج ہم اپنے اس باپ کو اپنے دوستوں کے مشوروں کے سامنے غلط ثابت کرکے انہیں دھتکارتے ہیں اور کئی لوگ ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ آج کے وقت کے مطابق باپ کی باتیں اور مشورے صرف پرانی سوچ کا نتیجہ ہیں اور وہ ہمارے لئے آج کے دور کے مطابق صحیح اور درست نہیں ہیں یہ معاملات آج کے دور میں نظر آنا حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان تھا ۔

8 ۔ " مسجد میں لوگ زور زور سے باتیں کریں گے "
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے یہ فرمان بھی صحیح اور درست ہے کہ آج کل لوگ مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت یعنی نماز یا قرآن مجید کی تلاوت کے علاوہ دنیاوی باتوں میں زیادہ محو نظر آتے ہیں دنیاوی معاملات ہوں یا مسجد کے مطعلق کسی بات پر بحث چند لوگ بیٹھ کر زور و شور سے گفت و شنید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے کی قرآن و حدیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے لیکن ہمارے یہاں یہ بات بڑی عام ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان ہے ۔

9 ۔ "جب ذلیل قسم کے لوگ حکمران بن جائیں گے"
حضور ﷺ کے اس فرمان کی جب ہم گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف اور واضح الفاظ میں ہمیں بتایا ہے کہ جب لوگوں کے اعمال اچھے نہ ہوں گے تو ان پر ظالم اور جابر حکمران مسلط کریئے جائیں گے اور کئی احادیث مبارکہ میں بھی ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ظالم حکمران دراصل ہمارے بارے اعمال ہیں جو حکمران کے صورت ہم پر مسلط کریئے جاتے ہیں لہذہ ہمیں اپنے اعمالوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی ورنہ ظالم حکمرانوں سے ہماری جان نہیں چھوٹے گی اور ظالم و جابر حکمران کا ہم پر مسلط ہونا اس لئیے بھی ضروری تھا کہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کی پیشنگوئی اور فرمان تھا ۔

10 ۔ " کسی شخص کی عزت اس کے شر سے بچنے
کے لیئے کی جائے گی" ۔
یعنی ہمارے درمیان کچھ ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کی عزت ہم صرف اس لیئے کریں گے کہ اگر ان کی عزت نہ کی تو پھر ان کے شر سے بچنا مشکل ہو جائے گا بس اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے ہم ان کی عزت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے حالانکہ ہمارے دلوں میں نہ ان کی کوئی عزت ہوگی اور نہ ہی ہمارے نظروں میں وہ عزت کے قابل ہوں گے ہم آئے دن ایسے واقعات سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کہ فلاں علاقے کے کسی شہری نے وہاں با اثر شخص کے خلاف کوئی بات کی تو اس ظالم شخص نے یا تو اسے اٹھوادیا ، غائب کروادیا یا پھر براہ راست مروادیا ایسے معاملات ہمیں اکثرو بیشتر سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں اور کیوں نہ ملیں یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان ہے جو پورا ہونا ہی ہے۔

11 ۔" جب شراب عام پی جائے گی "
پہلے معاملہ کچھ ایسا تھا کہ شراب کے اڈے زیادہ تر یا غیر مسلم ممالک میں ہمیں دکھائی دیتے تھے یا پھر شہر کے ایسے علاقے میں جہاں کی ابادی کا تناسب زیادہ تر غیر مسلم یا یہودی لوگوں پر ہوتا تھا لیکن اب ہماری آبادیوں اور شہر کے معروف علاقوں میں ہمیں نہ صرف یہ اڈے نظر آتے ہیں بلکہ ان اڈوں پر سیکیورٹی بھی فراہم کی جاتی ہے اور شراب جیسی حرام چیز کے عادی لوگ وہاں سے یہ گندہ پانی خریدنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں گویا یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے انسان کی یہ گیارہویں خصلت بھی صحیح ثابت ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان عالیشان تھا اس لیئے پورا تو ہونا تھا۔

12 ۔ " جب ریشمی کپڑا پہنا جائے گا " ۔
اگر حضور ﷺ کے اس فرمان پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ واقعی آج کے دور میں مرد اور عورتوں کے کپڑوں میں کوئی فرق نہیں ملتا کیونکہ پہلے زمانے میں ریشمی کپڑے کا استعمال صرف عورتوں تک محدود تھا جبکہ آجکل یہ حد ختم ہوگئی ہے اور اب مردوں کو بھی ریشمی کپڑوں میں دیکھا جا سکتا ہے اکثر دعوتوں میں بڑے بڑے پروگراموں میں یہاں تک کہ چلتے پھرتے بازاروں میں بھی مردوں کے جسم پر ریشمی جوڑے ہمیں صاف دکھائی دیتے ہیں اور آج کے دور میں ہمیں یہ خصلت اس لیئے دکھائی دیتی ہے کہ میرے آقا و مولا کا یہ فرمان ہے جو پورا ہونا ہی تھا اور وہ ہوا ۔

13 ۔ " جب گانے بجانے والی عورتیں گھروں میں
بلائی جائیں گی".
یہ سلسلہ بھی ہمارے آج کے دور میں دنیا کے ہر حصے میں اور ہمارے اپنے ملک میں بھی اب عام نظر آتا ہے پہلے لوگ اپنے گھروں کے شادی بیاہ کے پروگراموں میں میوزیکل پروگرام کا انعقاد کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں جبکہ بڑے زمینداروں اور بڑے چوہدریوں کے یہاں عورتوں کو بلایا جاتا ہے جو گانوں کی دھن پر عریاں رقص کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں جبکہ لوگ ان پر نوٹوں کی بارش کرکے اپنا کمایا ہوا حرام کا پیسہ ان پر لٹاتے نظر آتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ میرے آقا و مولا نے یہ فرمان جاری کیا اور اپنی امت کے کچھ لوگوں میں پائی جانے والی اس خصلت کا خدشہ ظاہر کیا اب چونکہ یہ فرمان حضور ﷺ کا ہے تو اس خصلت کے ظاہر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے ۔

14 ۔ " گانے بجانے والا سامان گھروں میں ہوگا "
اس فرمان کا تعلق زیادہ تر ہمارے نوجوانوں سے ہے جو گانے بجانے کے شوق میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ موسیقی کے آلات جس میں گٹار ڈھول اور ہارمونیم جیسے آلات بھی ہوتے ہیں وہ گھروں میں رکھ لیتے ہیں اور جب ہم ان گھروں کے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں ان کے بجنے کی آواز صاف سنائی دیتی ہے اور ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہاں کوئی گانے والا یا بجانے والا موجود ہے اس فرمان کا ایک مطلب ہم یہ بھی نکال سکتے ہیں کہ کئی گھروں میں زور زور سے گانے کی آواز آتی رہتی ہے اور ٹیپ ریکارڈر یا آڈیو پلئیر جو اجکل ہر گھر میں پایا جاتا ہے اس کے بجنے کی بھی آواز اکثرو بیشتر سنائی دیتی ہیں اور بقول حضور ﷺ کے فرمان کے کہ گانے بجانے کا سامان گھروں میں ہوگا سب ثابت ہوجاتا اور کیوں نہ ہو کہ یہ فرمان میرے آقا و مولا حضور صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کا ہے جو پورا ہونا ہی تھا ۔

15 ۔ " جب امت کے آخری لوگ اپنے پہلے کے
لوگوں پر لعن طعن کریں گے ".
حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق وہ لوگ ہیں جو دنیاوی اعتبار سے دینی تعلیم حاصل کرکے کوئی نہ کوئی مقام حاصل کرتے لیں یعنی عالم دین یا مفتی کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں پھر جب انہیں اپنے علم کو لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے تو وہ لوگ نعوذ و باللہ ہمارے ولی اللہ بزرگان دین یہاں تک کہ نعوذباللہ کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تابعی بزرگوں پر اپنے منہ سے غلط جملوں کا استعمال کرکے انہیں برا بھلا کہنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور یہ معاملات آجکل سوشل میڈیا پر بڑا عام دکھائی دیتا ہے جو ہماری نئی نسل کو غلط راہ پر لیجانے میں مصروف عمل ہے اور ایسے معاملات کو سرے عام اور کھلم کھلا اظہار کرنا ہی حضور ﷺ کے اس فرمان کو سچ ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ میرے آقا و مولا حضور ﷺ کا فرمان عالیشان ہے جس کو پورا ہونا ہی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان تمام خصلتوں کا ذکر کرنے کے بعد میرے سرکار حضور ﷺ نے فرمایا کہ پس اس وقت لوگ عذابوں کے منتظر رہیں یا تو سرخ آندھی یا خسف یا پھر چہرے مسخ ہو جانے والا عذاب۔ اب آپ یہ دیکھیئے کہ آئے دن آپ سنتے ہیں کہ فلاں جگہ آگ لگ گئی فلاں جگہ سیلاب نے گھروں نے گھر اجاڑ دیئے میں جس وقت یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس سے کچھ دنوں قبل ہمارے اپنے ملک کے صوبہ خیبرپختونخوا میں بارش کے بعد آنے والے سیلاب اور بادل کے پھٹنے کے واقعات سے سیکڑوں مکانات منہدم ہوگئے اور کئی لوگ لوگ لاپتہ ہوگئے اس سے پہلے اسلام آباد و راولپندی میں بھی یہ ہی ہوا جبکہ کل یعنی 19 اگست کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا بھی یہ ہی حال ہوا یہ سب عذابات ہیں جو ہمیں اپنے گناہوں اور برے اعمالوں کے سبب دیکھنے کو مل رہے ہیں اس کے باوجود بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ اس حدیث میں موجود عذابات کا ہم پر وارد ہونا ابھی نظر نہیں آیا لیکن یہ اشارات ہیں بارش کا سیلاب کی شکل اختیار کرلینا اور بادل کے پھٹنے سے پورے کے پورے علاقے زیر آب آجانا یہ اشارات ہیں کہ اگر ہمارے اعمال اسی طرح برقرار رہے تو اس کے مطابق سرخ آندھی کا آجانا یا چہروں کے مسخ ہوجانے والے عذابات کا نزول ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کیونکہ یہ فرمان مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم ہے اور جو میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے فرمادیا وہ ہوکر رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری آج کی حدیث یعنی ہمارے سلسلے کی پندرہویں حدیث کا ایک مختصر مگر جامع خلاصہ میں نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے اب میں اس میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں یہ آپ لوگ پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں حضور ﷺ کی ان پیشنگوئیوں کو فرمودات کی شکل میں پڑھ کر ان کو سمجھنے اور پر عمل کرنے کی کوشش ہم سب کو کرنی چاہیئے میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے جن خصلتوں کا میرے آقا و مولا حضور ﷺ نے اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان خصلتوں میں ملوس ہونے سے بچائے اور اگر ہمارے اندر یہ خصلتیں یا ان میں سے کوئی بھی خصلت موجود ہو تو ہمیں اس سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان لوگوں سے دور رکھے جو ان خصلتوں میں ملوس ہیں اور ان لوگوں کو بھی ان خصلتوں سے باہر نکلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنے راستے پر چلائے۔
مجھے سچ لکھنے کی اللہ تعالیٰ ہمیشہ توفیق عطا فرمائے ہم سب کو اللہ تعالیٰ اپنے احکامات پر عمل کرنے اور حضور ﷺ کی احادیث مبارکہ کو پڑھ کر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیئے گا ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 190 Articles with 171376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.