"دانشور: رہنما یا رکاوٹ؟"

"دانشور: رہنما یا رکاوٹ؟
تحریر:ابنِ آزادی

پڑھے لکھے دانشور" یا "قلمکار" اپنی تحریروں اور خیالات کے ذریعے قومی آزادی یا آزادی کی جدوجہد کو کمزور کرتے ہیں۔

اس کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ:

بعض تعلیم یافتہ افراد اپنی "عقلیت" یا "مصلحت پسندی" کے نام پر عوامی جذبات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ اکثر طاقتور طبقے، سامراج یا حکومت کے حق میں دلیلیں دینے لگتے ہیں تاکہ عوامی مزاحمت کو "غیر حقیقت پسندانہ" یا "غیر عقلی" ثابت کیا جا سکے۔

اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب عام عوام آزادی کے لیے قربانیاں دینے پر تیار ہوتے ہیں تو یہ ’’دانشور‘‘ ان کی حوصلہ شکنی کر کے سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔


یہ بات ہر ’’پڑھے لکھے دانشور‘‘ پر لاگو نہیں ہوتی۔ بہت سے ایسے اہلِ علم بھی ہیں جنہوں نے آزادی کی تحریکوں میں قیادت کی، عوام کو بیدار کیا، اور قربانیاں دیں۔ لیکن تاریخ میں ایسے دانشور بھی ملتے ہیں جنہوں نے اقتدار اور مراعات کی خاطر آزادی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کی تحریکوں میں سب سے مشکل رکاوٹ صرف بیرونی طاقت نہیں ہوتی بلکہ اندر سے وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو دلیل، فلسفہ یا مصلحت کے نام پر آزادی کی جدوجہد کو کمزور کرتے ہیں۔ ایسے ’’دانشور‘‘ کو روکنے کے لیے چند راستے اختیار کیے جا سکتے ہیں:

۱۔ علمی و فکری جواب دینا

ان کی باتوں کو جذباتی نعرے کے بجائے علمی دلائل اور تاریخی حقائق کے ذریعے رد کیا جائے۔

اگر وہ کہتے ہیں کہ آزادی ممکن نہیں، تو تاریخ سے مثالیں دی جائیں کہ کمزور قومیں بھی آزاد ہوئی ہیں۔

اگر وہ کہتے ہیں کہ قربانی کا فائدہ نہیں، تو دکھایا جائے کہ قربانی ہی آزادی کی بنیاد بنتی ہے۔


۲۔ عوامی بیداری

عوام میں شعور پیدا کرنا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ اگر عوام باشعور ہوں تو کسی دانشور کی گمراہ کن بات اثر نہیں کرے گی۔

جلسے، تقریریں، ادب، شاعری، ڈرامے اور صحافت کے ذریعے آزادی کے پیغام کو عام کیا جائے۔


۳۔ مثبت دانشوروں کی سرپرستی

جو اہلِ قلم اور اہلِ علم آزادی کی حمایت کرتے ہیں ان کو آگے لایا جائے، تاکہ ان کی آواز غالب رہے۔

ادب، صحافت اور نصاب میں آزادی پسند مفکرین کی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے۔


۴۔ سیاسی و سماجی دباؤ

اگر کوئی شخص کھلے عام آزادی کی مخالفت کرے اور قابض یا ظالم قوت کا ترجمان بنے تو اس کے خلاف سیاسی اور سماجی دباؤ ڈالا جائے۔

عوامی سطح پر اس کے خیالات کو رد کیا جائے تاکہ اسے یہ احساس ہو کہ قوم اس کے ساتھ نہیں۔


۵۔ کردار کا مقابلہ کردار سے

محض مخالفت کرنے سے فائدہ نہیں، بلکہ اپنی صفوں میں دیانت، قربانی اور سچائی کے ذریعے ایک عملی مثال قائم کرنا ضروری ہے۔

جب عوام دیکھتے ہیں کہ آزادی کے داعی لوگ خود قربانیاں دے رہے ہیں تو کسی مخالف دانشور کی بات زیادہ دیر اثر نہیں کرتی۔

تاریخ میں کئی مثالیں ہیں جہاں پڑھے لکھے اور بظاہر ’’باشعور‘‘ دانشور آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے۔ کچھ نمایاں مثالیں یہ ہیں:
الجزائر کی آزادی (فرانس سے)

فرانسیسی تعلیم یافتہ الجزائر کے بعض دانشور کہتے تھے:
’’ہم اصل میں فرانسیسی ہیں، آزادی کی بات کرنے والے پسماندہ دیہاتی ہیں۔‘‘

یہ لوگ فرانسیسی زبان و ثقافت کو ’’اعلیٰ‘‘ اور اپنی قومی شناخت کو ’’کمتر‘‘ دکھاتے تھے۔

ان کے مقابلے میں فرانز فینن جیسے مفکر نے لکھا کہ اصل غلامی ذہن کی غلامی ہے، اور آزادی اسی وقت آئے گی جب دانشور سامراج کے بجائے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

افریقی نوآبادیات (انیسویں اور بیسویں صدی)

افریقہ میں یورپ سے پڑھ کر آنے والے کچھ لوگ سامراجی حکومت کے وفادار بنے۔

وہ سامراجی حکمرانوں کو یہ باور کراتے رہے کہ "مقامی عوام پسماندہ ہیں، انہیں خود حکومت نہیں مل سکتی۔"

یہ وہی ’’دانشور‘‘ تھے جو سامراج کو اخلاقی جواز دیتے رہے۔

آج بھی بعض ملکوں میں "پڑھے لکھے تجزیہ کار" یا "نام نہاد مفکر" ٹی وی پر آ کر عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ:

آزادی یا حقیقی جمہوریت ممکن نہیں۔

طاقتور ملکوں کا سہارا لینا ہی ’’ترقی‘‘ ہے۔

اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا "انتہا پسندی" ہے۔

سامراج یا قابض طاقت کو ہمیشہ "قلم اور زبان والے" لوگوں کی ضرورت رہی ہے تاکہ وہ عوامی جذبات کو قابو میں رکھ سکیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے:
"غلامی کی زنجیریں صرف فوجی طاقت سے نہیں، اکثر دانشوروں کی دلیل سے مضبوط کی جاتی ہیں۔"

جہاں کچھ تعلیم یافتہ دانشور آزادی کے مخالف ہوئے، وہاں کئی دانشور ہی آزادی کی اصل طاقت اور رہنما بنے۔ ان کی چند مثالیں دیکھیں:
🔹 الجزائر

فرانز فینن (Frantz Fanon) → خود ڈاکٹر اور دانشور تھے، مگر الجزائر کی آزادی کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں بتایا کہ سامراج صرف زمین پر نہیں بلکہ ذہن پر بھی قبضہ کرتا ہے، اور دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

🔹 افریقہ

Kwame Nkrumah (گھانا) → اعلیٰ تعلیم یافتہ فلسفی اور سیاستدان تھے، مگر انہوں نے غلامی اور سامراج کے خلاف "آزادی ابھی" (Freedom Now) کا نعرہ دیا اور گھانا کو آزادی دلائی۔

Julius Nyerere (تنزانیہ) → استاد اور فلسفی تھے، لیکن عوام کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک چلائی۔
--
🔹 عرب دنیا

جمال عبدالناصر (مصر) → فوجی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی دانشور بھی تھے۔ انہوں نے عرب دنیا میں سامراج کے خلاف آزادی اور خودمختاری کی تحریک پیدا کی۔

🔹 یورپ کے اندر

آئرلینڈ میں ڈبلیو بی ییٹس (W.B. Yeats) جیسے شاعر اور کئی لکھاری آزادی کے حامی تھے، جنہوں نے ادب کے ذریعے مزاحمت کو طاقت دی۔

 

Dur muhammad
About the Author: Dur muhammad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.