پاکستان زندہ باد
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
|
پاکستان زندہ باد
علی عباس کاظمی (روپوال، چکوال) چودہ اگست کی رات جب آسمان پر ستارے جھلملاتے ہیں اور فضا میں آزادی کی خوشبو پھیلتی ہے تو دل ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کی ایک وسیع و عریض زمین جو صدیوں سے ایک تھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف پاکستان جو مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز بنا اور دوسری طرف بھارت جو اکثریت کی خواہشات کا عکس۔ لیکن یہ تقسیم محض لائنوں کی نہیں تھی یہ خوابوں کی، رشتوں کی اور خون کی تقسیم تھی۔ آج 78 سال بعد جب ہم سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ ان خوابوں کی قیمت کیا تھی؟ دو قومیں ۔ ۔ ۔ دو ریاستیں ۔ ۔ ۔ آج کہاں کھڑے ہیں ہم؟ یاد کیجیے جب قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز میں ایک نئی امید گونجی تھی "ہم ایک آزاد ملک چاہتے ہیں جہاں مسلمان آزادانہ طور پر رہ سکیں اپنی ثقافت، اپنے مذہب اور اپنی روایات کے ساتھ۔" دو قومی نظریہ جو سر سید احمد خان سے شروع ہوا اور علامہ اقبال کی شاعری میں ڈھلا آخر کار حقیقت بن گیا۔ لیکن یہ حقیقت کتنی تلخ تھی ۔ ۔ ۔ لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نئی سرزمین کی طرف روانہ ہوئے۔ ٹرینیں خون سے لت پت، کارواں درد کی داستان سناتے اور دریا انسانی لاشوں سے بھرے۔ آزادی کی قیمت خون تھی، آنسو تھے، اور وہ خواب جو کبھی پورے نہ ہوئے۔ خواب ۔ ۔ ۔ ہاں، خوابوں کی بات کریں تو قائد کا خواب تھا ایک ایسے پاکستان کا جہاں سب برابر ہوں، جہاں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، جہاں تعلیم اور ترقی کی راہیں کھلی ہوں۔ لیکن آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو وہ خواب ادھورے نظر آتے ہیں۔ پاکستان جو دنیا کا پہلا اسلامی جمہوریہ بنا آج کرپشن، غربت اور دہشت گردی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہماری نوجوان نسل جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے بے روزگاری کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ کیا یہی تھا وہ خواب جس کے لیے لاکھوں نے جان دی؟ دوسری طرف بھارت ۔ ۔ ۔ جو گاندھی اور نہرو کی قیادت میں ایک سیکولر جمہوریت کا دعویٰ کرتا ہے وہاں بھی خوابوں کی قیمت کم نہیں،تقسیم کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ کشمیر جو دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کا مرکز ہے آج بھی درد کی داستان سنا رہا ہے۔ بھارتی مسلمان جو اقلیت ہیں مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ بابری مسجد کا انہدام، گجرات کے فسادات، اور اب مودی دور کی پالیسیاں – یہ سب بتاتے ہیں کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد اب بھی مضبوط ہے۔ لیکن کیا اس تقسیم نے ہمیں الگ کر دیا یا متحد کر دیا ؟ آج دونوں ملک نیوکلیئر پاور ہیں دونوں اقتصادی ترقی کی دوڑ میں شامل ہیں لیکن نفرت کی دیوار اب بھی کھڑی ہے۔ سرحد پر گولیاں چلتی ہیں اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم کے بعد دونوں قوموں نے اپنے اپنے راستے چنے۔ پاکستان نے اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست بنائی جہاں قرآن اور سنت کی روشنی میں قوانین بنے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان اصولوں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ضیاء الحق کا دور جہاں اسلامائزیشن کا نعرہ لگا دراصل ایک آمریت تھی۔ مشرف کا دور جو لبرل ازم کا دعویٰ کرتا تھا کرپشن اور سیاسی انتشار کا شکار رہا۔ اور آج کے جمہوری دور میں سب ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کر رہے ہیں۔ عوام جو آزادی کے خواب دیکھتے تھے آج مہنگائی اور بے انصافی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کیا ہم نے خوابوں کی قیمت ادا کی ہے یا اب بھی قسطوں میں ادا کر رہے ہیں؟ اب جذباتی طور پر سوچیں تو یہ تقسیم نہ صرف زمین کی تھی بلکہ دلوں کی بھی۔ ہماری مشترکہ تاریخ، مشترکہ ثقافت ،بالی وڈ اور لالی وڈ، کرکٹ اور ہاکی سب ایک جیسے ہیں۔ پھر کیوں یہ نفرت؟ 1971 کا سانحہ جب بنگلہ دیش الگ ہوا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تقسیم کی قیمت جاری ہے۔ مشرقی پاکستان کے لوگ جو زبان اور ثقافت کی بنیاد پر الگ ہوئے آج ایک نئی قوم ہیں۔ لیکن پاکستان میں بلوچستان اور سندھ کی آوازیں اب بھی حقوق کی مانگ کر رہی ہیں۔ کیا ہم نے سبق سیکھا ؟ یا اب بھی خوابوں کی قیمت بھگت رہے ہیں؟ آج 2025 میں جب دنیا AI اور خلائی سفر کی بات کر رہی ہے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان میں CPEC جیسے منصوبے امید کی کرن ہیں لیکن قرضوں کا بوجھ کمر توڑ رہا ہے۔ بھارت جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے خلائی مشن بھیج رہا ہے لیکن غربت اور بھوک کی شرح اب بھی بلند ہے۔ دونوں ملکوں میں نوجوان جو آبادی کا بڑا حصہ ہیں تبدیلی چاہتے ہیں۔لیکن امید کی بات کریں تو دونوں قوموں میں ایسے لوگ ہیں جو امن چاہتے ہیں۔ تصور کریں اگر سرحد پر نفرت کی بجائے تجارت ہو ، اگر کشمیر میں امن ہو تو کیا خواب پورے نہ ہوں ؟ قائد کا فرمان تھا "کام، کام اور صرف کام۔" لیکن ہم نے اسے بھلا دیا۔ آج جب چودہ اگست کو پاں پاں والے با جوں کابے ہنگم شور اور آتش بازی ہوتی ہے تو دل پوچھتا ہے کیا یہی حقیقی آزادی ہے ؟ سچ کہوں تو یہ کالم لکھتے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں ۔ ۔ ۔ دو قومیں، دو ریاستیں لیکن ایک مشترکہ درد۔ آج کہاں کھڑے ہیں ہم ؟ شاید اب بھی راستے پر ۔ ۔ ۔ خوابوں کی تلاش میں ۔ ۔ ۔ لیکن اگر ہم اپنے اندر کی نفرت کو ختم کریں تو شاید وہ خواب پورے ہو جائیں۔ پاکستان زندہ باد
|
|