کراچی صوبہ یا مضبوط بلدیاتی نظام؟
(Usama Siddiqui, Karachi)
|
کراچی صوبہ یا مضبوط بلدیاتی نظام؟
کراچی جو پورے پاکستان کی شہ رگ ہے، کئی دِہایوں سے اپنے وجود اور شناخت کے سوال کے گرد گھوم رہا ہے۔ کبھی یہ بحث چھڑتی ہے کہ کراچی کو الگ صوبہ بنایا جائے، کبھی کہا جاتا ہے کہ انتظامی یونٹ بنایا جائے اور کبھی اس کے مسائل کا حل مضبوط بلدیاتی اداروں میں تلاش کیا جاتا ہے۔
کراچی کو صوبہ بنانے یا نہ بنانے کے نعرے ہمیشہ سیاسی مفاد کی لئے لگائے جاتے ہیں لیکن اگر حقیقت پسند ہو کر دیکھا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آج کراچی صوبہ بننے سے کل تک کراچی کے لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کراچی بجلی، گیس، پانی، سیوریج اور انفرااسٹرکچر کے مسائل سے آزاد ہو جائے گا ؟ بالکل نہیں۔ کراچی کے لوگ صبح اُٹھ کر یہ نہیں سوچتے کہ کراچی کو صوبہ ہونا چاہیے یا انتظامی یونٹ بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ آج پانی آئے گا یا نہیں؟ بجلی کتنی دیر کے لئے جائے گی؟ کچرا کب اٹھے گا؟ تعلیم اور صحت کہاں سے ملے گی؟
پھر بھی اگر کراچی صوبہ بھی جائے تو اس کے پاس ترقی کی وسیع تر گنجائش موجود ہوگی۔ یہ شہر پاکستان کا معاشی مرکز ہے، جہاں ریسرچ، ٹیکنالوجی، صنعت، تجارت، صحت اور تعلیم کے شعبے پہلے سے بنیاد رکھتے ہیں۔ الگ صوبہ بننے کی صورت میں براہِ راست بجٹ اور آزادانہ پالیسی اور سرمایہ کاری کے ذریعے یہ شعبے تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری بڑھے گی، نئی جامعیت، ریسرچ سینٹر اور اسپتال قائم ہوں گے اور آئی ٹی میدان میں کراچی عالمی سطح پر نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن ترقی کی چمک دمک کے ساتھ ایک حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کے لئے باقی صوبوں پر انحصار۔
پانی کا مسلئہ سرِ فہرست ہے۔ کراچی کا اپنا آبی ذریعہ نہیں ہے۔ باوجود اِس کے کہ کراچی سمندر کنارے آباد ہے اگر آج کراچی میں Desalination Plant لگ بھی جائے تو اِس سے مستفید ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اس وقت پورے شہر کا زیادہ تر پانی دریائے سندھ سے آتا ہے، جس پر مکمل کنٹرول سندھ حکومت یعنی پی پی پی کا ہے۔ اگر صوبہ بن بھی جائے تو پانی کے لئے اُس ہی پی پی پی پر انحصار کرنا پڑے گا جس کی پالیسیوں کی وجہ سے صوبہ الگ کر رہے ہیں۔ پانی کی تقسیم پر آئینی اور انتظامی تصادم لازمی رہے گا۔
اسی طرح خوراک کے معاملے میں بھی کراچی خود کفیل نہیں ہے۔ شہر کی بڑی آبادی کے لئے گندم، چاول اور دیگر اجناس اندرون سندھ اور پنجاب سے لائے جاتے ہیں۔ اگر کل کو کراچی صوبہ بن جائے اور سیاسی تناؤ پیدا ہو تو خوراک کی ترسیل بری طرح متاثر ہو گی، جس کا براہ راست اثر قلت اور مہنگائی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے فوڈ سیکورٹی پالیسی بنانی پڑے گی۔
انرجی سیکٹر میں بھی صورت حال مختلف نہیں کیونکہ باقی شعبوں کی طرح کراچی اس میں بھی کنزیومر کی حیثیت رکھتا ہے نہ کے پروڈیوسر کی۔ گیس اندرون سندھ اور بلوچستان سے آتی ہے اور صوبہ بننے کے باوجود کراچی کو اس تقسیم کے لئے وفاق اور پروڈیوسنگ صوبوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
یوں دیکھا جائے تو کراچی صوبہ بننے کے بعد ترقی کے بے شمار امکانات ہیں لیکن بنیادی ضروریات کے لئے انحصار بدستور دوسرے صوبوں پر ہی کرنا پڑے گا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کی اصل ترقی صرف مضبوط بلدیاتی نظام میں ہے، جہاں شہر کے ہر ادارے کا انتظام سٹی میئر کی ماتحت ہو۔ مزید یہ کہ جس طرح سندھ حکومت 18ویں آئینی ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ لیتی ہے اسی طرز پر کراچی کو پی ایف سی کے ذریعے اس کا جائز حق ملنا چائیے تا کہ شہریوں کے اُن کی دہلیز پہ حل ہو سکیں۔ اصل جمہوریت وہی ہے جو شہری کے دروازے پر فیصلہ سازی کو ممکن بنانے اور یہی کراچی کے مسائل کا پائدار حل ہے۔ |
|