خصوصی بچیوں کی نجی زندگی پر حملہ

پنجاب میں سپیشل ایجوکیشن کے اسکولوں میں حکومت کی جانب سے کلاس رومز کے اندر کیمرے نصب کرنے کی خبر سے سپیشل بچیوں کے والدین ھراسگی harassment کا شکار ھیں ۔ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک ایسا اقدام ہے جس نے والدین، طالبات اور خواتین اساتذہ کے دلوں میں بے شمار سوالات اور خدشات جنم دیے ہیں۔ ایک حالیہ وی لاگ میں تو اسپیشل بچوں کے اسکولز کے حوالے سے براہِ راست یہ تحفظات سامنے آئے کہ خواتین اسٹاف اور جوان بچیاں اپنی نجی زندگی اور عزت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

حکومت کے نزدیک شاید یہ قدم چیک اینڈ بیلنس کا ایک ذریعہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا عدم اعتماد ہے جو براہِ راست اساتذہ اور طالبات پر کیا جا رہا ہے۔ اگر مقصد اسکولوں میں نظم و ضبط قائم کرنا ہے تو اس کے لیے درجنوں دوسرے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کلاس رومز میں کیمرے نصب کرنا دراصل یہ تاثر دیتا ہے کہ بچیاں اور خواتین اساتذہ خود مشکوک ہیں اور ہر وقت ان پر نگرانی ضروری ہے۔ یہ سوچ بذاتِ خود ایک خطرناک رویہ ہے۔

آج کے ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت (AI) کے دور میں سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ کیمروں سے حاصل شدہ ریکارڈ کس کے پاس جائے گا، کس طرح محفوظ رہے گا اور کب لیک ہو کر کس شکل میں سامنے آئے گا؟ آئے دن اسکینڈلز کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ کوئی بھی ویڈیو چند منٹوں میں ایڈٹ ہو کر کردار کشی کا ہتھیار بن سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں خواتین اساتذہ اور معصوم طالبات کو مسلسل خوف اور دباؤ میں رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ہم نے اس ملک میں پہلے ہی عورت کو جینے کا سکون دیا ہے کہ اب اس کے تعلیمی ماحول کو بھی شک اور خوف کی نذر کیا جا رہا ہے؟

ایک طرف حکومت بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے اور دوسری طرف ان ہی بچیوں کے اعتماد کو مجروح کرنے والے اقدامات اٹھاتی ہے۔ کیا ایک بچی جو روزانہ کیمرے کی آنکھ میں قید رہے گی، آزاد ذہن اور کھلے دل سے سیکھ سکے گی؟ تعلیم صرف کتابی علم کا نام نہیں بلکہ شخصیت کی تعمیر ہے۔ لیکن اگر کلاس روم ہی جیل کا کیمرہ لگنے لگے تو وہاں شخصیت کیسے پروان چڑھے گی؟


خصوصی بچوں کی نجی زندگی پر حملہ؟

پنجاب میں سپیشل ایجوکیشن کے اسکولوں میں حکومت کی جانب سے کلاس رومز کے اندر کیمرے نصب کرنے کی خبر سے سپیشل بچیوں کے والدین ھراسگی harassment کا شکار ھیں ۔ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک ایسا اقدام ہے جس نے والدین، طالبات اور خواتین اساتذہ کے دلوں میں بے شمار سوالات اور خدشات جنم دیے ہیں۔ ایک حالیہ وی لاگ میں تو اسپیشل بچوں کے اسکولز کے حوالے سے براہِ راست یہ تحفظات سامنے آئے کہ خواتین اسٹاف اور جوان بچیاں اپنی نجی زندگی اور عزت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

حکومت کے نزدیک شاید یہ قدم چیک اینڈ بیلنس کا ایک ذریعہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا عدم اعتماد ہے جو براہِ راست اساتذہ اور طالبات پر کیا جا رہا ہے۔ اگر مقصد اسکولوں میں نظم و ضبط قائم کرنا ہے تو اس کے لیے درجنوں دوسرے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کلاس رومز میں کیمرے نصب کرنا دراصل یہ تاثر دیتا ہے کہ بچیاں اور خواتین اساتذہ خود مشکوک ہیں اور ہر وقت ان پر نگرانی ضروری ہے۔ یہ سوچ بذاتِ خود ایک خطرناک رویہ ہے۔

آج کے ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت (AI) کے دور میں سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ کیمروں سے حاصل شدہ ریکارڈ کس کے پاس جائے گا، کس طرح محفوظ رہے گا اور کب لیک ہو کر کس شکل میں سامنے آئے گا؟ آئے دن اسکینڈلز کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ کوئی بھی ویڈیو چند منٹوں میں ایڈٹ ہو کر کردار کشی کا ہتھیار بن سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں خواتین اساتذہ اور معصوم طالبات کو مسلسل خوف اور دباؤ میں رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا ہم نے اس ملک میں پہلے ہی عورت کو جینے کا سکون دیا ہے کہ اب اس کے تعلیمی ماحول کو بھی شک اور خوف کی نذر کیا جا رہا ہے؟

ایک طرف حکومت بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے اور دوسری طرف ان ہی بچیوں کے اعتماد کو مجروح کرنے والے اقدامات اٹھاتی ہے۔ کیا ایک بچی جو روزانہ کیمرے کی آنکھ میں قید رہے گی، آزاد ذہن اور کھلے دل سے سیکھ سکے گی؟ تعلیم صرف کتابی علم کا نام نہیں بلکہ شخصیت کی تعمیر ہے۔ لیکن اگر کلاس روم ہی جیل کا کیمرہ لگنے لگے تو وہاں شخصیت کیسے پروان چڑھے گی؟

مسائل پہلے ہی بے شمار

پاکستان پہلے ہی معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور عدم تحفظ کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں۔ ایسے میں نئے مسائل کھڑے کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت تعلیمی اداروں میں سہولتوں کو بہتر بنائے، اساتذہ کی تربیت پر توجہ دے، اور نصاب میں جدت لائے، وہ کیمروں کی دیوار کھڑی کر کے نئے تنازعات پیدا کر رہی ہے۔

حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ

یہ فیصلہ صرف ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ ایک سماجی بحران کو جنم دینے والا ہے۔ بچیوں کے والدین پہلے ہی اپنی عزت اور آبرو کے حوالے سے بے حد حساس ہیں۔ اگر یہ اعتماد ٹوٹ گیا تو تعلیم کے دروازے مزید تنگ ہو جائیں گے۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ معاشرے کی بنیاد اعتماد اور تحفظ پر ہوتی ہے، شک اور خوف پر نہیں۔

کلاس رومز میں کیمروں کی تنصیب بظاہر "چیک اینڈ بیلنس" ہے مگر حقیقت میں یہ طالبات اور خواتین اساتذہ کی پرائیویسی اور عزت پر براہِ راست حملہ ہے۔ تعلیم کو نگرانی کے شکنجے میں کسنے سے معاشرہ پروان نہیں چڑھتا بلکہ گھٹتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس پالیسی پر نظرِ ثانی کرے اور سپیشل ایجوکیشن سکولوں کے کلاس رومز میں کیمروں کی تنصیب کا فیصلہ فوری واپس لے تاکہ خصوصی طالبات اور ان کی خواتین ٹیچرز کے اندر عدم تحفظ کا احساس ختم ھو - اگر پنجاب حکومت کیمروں کی تنصیب کا فیصلہ واپس لیتی ھے تو اس سے اس کی نیک نامی میں اصافہ ھو گا -  
خلیل الرحمٰن ملک
About the Author: خلیل الرحمٰن ملک Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.