خیبرپختونخوا میں پرائمری سکولوں کی نجکاری – تعلیم یا تجارت؟


خیبرپختونخوا میں تعلیم کا شعبہ ایک اور بڑے تجربے کی زد میں ہے۔ پہلے کالجز، پھر بنیادی مراکز صحت اور اب پرائمری سکول۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے صوبے کے اجتماعی ادارے ایک ایک کر کے ”سیل آوٹ“ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت بجٹ بچانا چاہتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ تعلیم جیسے بنیادی حق کو ”کاروباری منصوبے“ کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔

پرائمری سکول وہ بنیاد ہیں جہاں سے ایک بچہ اپنی تعلیمی اور سماجی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ یہیں سے وہ سیکھتا ہے کہ علم کس طرح زندگی بدلتا ہے۔ لیکن اگر وہ سکول بھی نجی شعبے کو سونپ دیے جائیں تو سوال یہ بنتا ہے:کیا غریب کا بچہ بھی اسی سکول میں جا سکے گا جہاں امیر کا بچہ داخل ہوگا؟ یا پھر تعلیم بھی بجلی، گیس اور پٹرول کی طرح ”قیمت“ کے حساب سے ملے گی؟ نجکاری کا مطلب صرف یہ نہیں کہ سکول چلانے والا بدل گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ فیس کا نظام آئے گا، چندے کی اپیلیں ہوں گی، اور سکول کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے والدین کی جیب پر ہاتھ ڈالنا ہوگا۔


خیبرپختونخوا کے دیہی اور قبائلی اضلاع میں ہزاروں بچے پہلے ہی تعلیم سے باہر ہیں۔ جو سکول موجود ہیں وہ بھی فرنیچر، واش روم اور اساتذہ کی کمی کا شکار ہیں۔ نجکاری کے بعد ان علاقوں میں کیا ہوگا؟فیس نہ دینے والے بچے سکول بدر ہوں گے۔ والدین بیٹیوں کو سکول بھیجنے کے بجائے گھر بٹھائیں گے۔ کمزور گھرانے ”مفت تعلیم“ کے وعدے پر یقین کھو دیں گے۔

یہ سب کچھ اس صوبے میں ہوگا جہاں پہلے ہی شرح خواندگی 55 فیصد کے قریب ہے، اور خواتین کی خواندگی اس سے بھی کم۔ سوال یہ ہے کہ نجکاری کے بعد کیا صوبہ ترقی کرے گا یا مزید پیچھے چلا جائے گا؟اساتذہ کو ہمیشہ معاشرے کا معمار کہا جاتا ہے۔ لیکن نجکاری کے بعد یہی معمار سب سے زیادہ غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ سرکاری ملازمت کا استحکام ختم ہو جائے گا۔ کنٹریکٹ اور کم تنخواہ پر اساتذہ کو ”پرفارمنس“ دکھانی ہوگی۔ ایسے ماحول میں کوئی بھی باصلاحیت نوجوان تدریس کو پیشہ کیوں بنائے گا؟ یہ عمل صرف اساتذہ کے ساتھ زیادتی نہیں، بلکہ براہِ راست طلبہ کے معیارِ تعلیم پر بھی حملہ ہے۔

حکومت یہ موقف پیش کرتی ہے کہ نجی شعبہ معیارِ تعلیم بہتر کرے گا۔ یہ ایک خوش فہمی ہے۔ نجی اداروں کا مقصد ہمیشہ منافع رہا ہے۔ اگر واقعی معیار کی فکر ہوتی تو دیہی علاقوں میں کھنڈر سکولوں کی جگہ ایئر کنڈیشنڈ کلاس روم کھڑے ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہروں میں بڑے نام والے سکول شاید ترقی کر جائیں لیکن دور دراز دیہات میں ”سستا ماڈل“ رائج ہوگا جہاں نہ تجربہ کار استاد ہوگا نہ معیاری نصاب۔

حکومت کا اصل عذر یہ ہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تعلیم پر کتنا خرچ کیا جا رہا ہے؟ صوبائی بجٹ میں تعلیم کا حصہ 12 سے 14 فیصد کے درمیان ہے، جبکہ عالمی معیار کم از کم 20 فیصد ہے۔ اگر یہی حکومت سیاسی منصوبوں پر کروڑوں لگا سکتی ہے، نئے دفاتر اور گاڑیاں خرید سکتی ہے تو پھر تعلیم کے لیے پیسہ کیوں نہیں؟ کیا آنے والی نسلیں کسی ”ٹینڈر“ یا ”پارٹنرشپ“ کی محتاج رہیں گی؟

نجکاری کے اس ماڈل سے کیا کچھ ہوگا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں: لاکھوں بچے سکول سے باہر ہو جائیں گے۔ امیر اور غریب کا تعلیمی فرق مزید بڑھ جائے گا۔ شرح خواندگی گرنے کے بجائے اوپر جانے کے بجائے نیچے آ سکتی ہے۔ تعلیم ایک بنیادی حق کے بجائے ”سروس“ بن جائے گی جسے خریدنے کے لیے جیب میں پیسے ہونا لازمی ہوگا۔

یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ حکومت ہر مسئلے کا حل نجکاری میں ڈھونڈتی ہے۔ گویا وہی پالیسی ساز بیٹھ کر کہتے ہیں: ”بی ایچ یو نہیں چل رہا؟ پرائیویٹ کر دو۔“ ”کالج پر بوجھ ہے؟ پرائیویٹ کر دو۔“ ”پرائمری سکول مشکل میں ہیں؟ پرائیویٹ کر دو۔“ اگر یہی چلتا رہا تو کل کو شاید تھانے، عدالتیں اور اسمبلی بھی ”پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ“ میں چلنے لگیں۔ آخر ریاست کس بات کی ذمہ دار رہ جائے گی؟

پرائمری سکولوں کی نجکاری وقتی طور پر حکومت کو راحت دے سکتی ہے، لیکن طویل مدت میں یہ پورے صوبے کو ایک تعلیمی بحران میں دھکیل دے گی۔ تعلیم کوئی منافع بخش صنعت نہیں بلکہ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجکاری کے بجائے نظام کی اصلاح کرے، اساتذہ کو سہولت دے، بجٹ بڑھائے اور نگرانی بہتر بنائے۔ بصورت دیگر آنے والی نسلیں صرف یہ کہیں گی کہ ”تعلیم بھی ایک زمانے میں سب کا حق ہوا کرتی تھی۔“

#SaveEducationKP #StopPrivatization #EducationForAll #KPStudentsMatter #NoToSchoolPrivatization #RightToEducation #FutureAtRisk #InvestInEducation #PublicSchoolsNotForSale #EqualityInEducation

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 778 Articles with 643485 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More