اگر راستہ نہ ملا تو۔۔

 افقِ گفتگو۔از ۔ایس ۔یو ۔شجر

حضرت علیؓ فرماتے ہیں :”غربت اگر مجھے انسان کی صورت میں نظر آ جاتی تو میں اسے قتل کر دیتا“۔عسرت و تنگدستی ازل سے ہے اور اسے ابد تک رہنا ہے لیکن جب سے خلقت میں دولت کو معیار عزت قرار دیا جانے لگاہے۔کم و بیش ہر بشر اپنی پہنچ تلک اسی کی تگ ودو میں مصروف عمل نظر آتاہے۔غربت سے تنگ آئے افراد بھی اس معیار عزت کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں ۔چند افراد کا تو قسمت ساتھ دیتی ہے اور وہ غربت کے فرش سے دولت کے عرش پر جلوہ فرما ہو جاتے ہیں ۔لیکن سب کا مقدر ایک سا نہیں ہوتا۔کئی اسی منزل کی تلاش میں کبھی خود اور کبھی میکاولی کے پیروکار سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ کر ہر جائز و ناجائز کام کر ڈالتے ہیں ‘شومئی قسمت سے اگر ان کی بدنصیبی پر کچھ عرصہ تالا پڑ جائے تو پھر یہی افراد مفلوک الحال لوگوں کا ہی گلا کاٹتے رہتے ہیں ۔اور انکے بعد وہ افراد آتے ہیں جو محض رزق حلال ہی کو اپنا نصب العین قرار دے دیتے ہیں ۔اور اسی پگڈنڈی پر چلتے چلتے پاﺅں میں آبلے پڑ جاتے ہیں مگر ان کے عزم میں کوئی فرق نہیں آتا۔لیکن انھیں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو جلد ہی حوصلہ ہار دیتے ہیں مگر حرام رزق سے کترانے والے یہ بنی آدم حالات کی بے رحمی سے دلبرداشتہ ہو کر اللہ کے قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔

سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کا راجہ خان بھی رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں ادھر اُدھر مارا مارا پھرتا رہا۔کئی سالوں کی تگ ودو کے بعد جب اس کی متلاشی نگاہوں کو بے عزتی ‘عدم توجہ‘نفرت اور پریشانی کے سوا کچھ نہ ملا تو رزق حلال کایہ متلاشی اپنے آپ کو جلا کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ایک نجی چینل کے مطابق راجہ خان قومی اسمبلی کے رکن اسمبلی ظفر علی شاہ کے حلقے سے تعلق رکھتا تھا اور انہی سے ملنے کی خواہش لیئے اس نے شاہی شہر کا رخ کیا۔اس سے قبل وہ بلاول ہاﺅ س کراچی اور صدر صاحب کی رہائش گا ہ بھی دیکھ آیا تھا ۔لیکن اس کی بھوک کو مٹانے کا جتن کوئی کیا کرتا اسے ملاقات کا شرف ہی نہ مل سکا۔

راجہ خان کی شادی آج سے آٹھ سال قبل ہوئی ۔اس کی تعلیم میڑک اور اس کی بیوی انٹر پاس تھی ۔جبکہ اس کے دو بچے تھے ۔دو سو روپے کی مزدوری کبھی کبھار اسے مل جایا کرتی تھی ۔مستقل روزگار کی تلاش نے اسے شہر خاموشاں تلک پہنچا دیا۔اس ملے ہوئے خط میں ارباب اختیار سے اپیل کی گئی ہے کہ اس کے دوبچوں اور حاملہ بیوی کی کفالت کی جائے۔راجہ خان کے بچوں کی نگہداشت ہو یا نہ ہو لیکن راجہ کی معصومیت کا اندازہ لگائیے کہ اس کی امید پھر بھی انھیں لوگوں سے بندھی ہے جنہوں نے اسے اس حال تک پہنچایا۔کیا محض ایک ہی جماعت راجہ کی قصوروار ہے؟راجہ کے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟کیا صاحب ثروت لوگ اس ملک سے اُٹھ چکے ہیں یا بے لگام ہوتی غربت نے انکے خزانے خالی کر دیئے ہیں؟یہ اور اس سے ملتے جلتے اور بہت سے سوالات میڈیا میں آپ کو ملیں گے چند دن راجہ کی عرضی بھی اس لہر کا حصہ بنے گی اور پھر ۔۔۔

یہ اس جمہوری دور کا کوئی پہلا سانحہ نہیں اس سے قبل 17جون2010کو پنجاب کے وزیر اعلٰی کے دفتر کے سامنے رکشہ ڈرائیور نے اپنی ایک بچی اور بیوی سمیت گولیاں کھا لیں اور پھر ہسپتال میں یہ تینوں ملک راہی عدم ہوگئے۔پھر بیس ستمبر 2010 کو بے رحم غربت سے تنگ آکر اکرم نامی شخص نے پہلے وزیراعظم سے ملنے کی سعی کی اور جب اس کی شنوائی ممکن نہ ہو سکی تو اس خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی۔پھر اسی سال 9نومبر 2010 کو بہاولپور کے مکین خاوند‘بیوی نے اپنے دو بچوں سمیت گورنرہاﺅس پنجاب کے سامنے خود کشی کی کوشش کی۔اسکے بعد بیس جون 2011کو راجن پور کے رہائشی اسد منیر نے سپریم کورٹ کے سامنے خود کو تلف کرنے کی سعی ناکام کی ۔اور پھر گزشتہ دنوں راجہ خان کی صورت میں یہ دلخراش منظر سامنے آیا ۔چند بیانات ‘رسمی امداد اور اظہار تعزیت کیا یہ اطوار پرانے نہیں ہوگئے؟ ۔کیا ان اقدام سے یہ لامنتاہی سلسلہ رک جائے گا؟کیا نت نئی وزارتیں تخلیق کرنے سے مایوسی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے ؟ہرگز نہیںجس ملک کے پچاس فیصد سے زائد لوگ معیاری خوراک سے محروم ہوں گے وہ اسد منیر اور راجہ خان ہی پیدا کرے گا۔اربوں ڈالر کے اثاثوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھی اس حمام میں ننگے ہیں الغرض ہمارے ہاںتقریبًا سب ہی میکاولی ہی کے پیروکار ہیں ۔

راجہ خان کی خود کشی کے مناظر دیکھ کر مجھے اپنے کیمسڑی کے پروفیسر کا سنایا ہو ا واقعہ یا د آگیا۔اُن کی بیگم صاحبہ نے ایک بلی پال رکھی تھی ۔جو موقع ملنے پر ان کے دن رات کی محنت سے تیار کردہ نوٹس کو اپنا لیڑین بنا لیتی اور یوں انکی محنت خاک میں مل جاتی ۔بیڈ کی چادر‘تکیہ وغیرہ تووہ پہلے بھی صبر و تحمل سے بدل لیتے تھے لیکن نوٹس کے بے حرمتی کا دکھ ان سے برداشت نہ ہوتا تھا۔لیکن گھر کی ملکہ کی خواہش اور حکم عدولی بھی وہ نہ کرسکتے تھے ۔کونکہ سیانے کہتے ہیں کہ”دن کو بادشاہ(حاکم)ملک پر حکومت کرتا ہے لیکن شام ڈھلے ملکہ بادشاہ پر حکومت کرتی ہے“۔بارہابیگم سے درخواست بھی کر چکے تھے کہ یہ شوق ختم کیجئے یا کوئی پنجرہ وغیرہ بنوا لیتے ہیں ۔مگر اکیسویں صدی کی عورت بھلا کیسے کسی کو قید کر سکتی تھی کیونکہ وہ تو جانتی تھی کہ اس سے قبل کی خواتین کو کیسے گھر میں قید رکھا جاتا تھا اور چار دیواری کی قید اُف اللہ۔اور پھر وہ بھی بے زبان کو قیدکرنا ایسے قبیح فعل کا ارتکاب تو کیا وہ تصور بھی نہ کر سکتی تھیں۔جب پروفیسر عبدالصمد صاحب کی بات نہ بنی تو وہ بلی کو ڈرانے دھمکانے لگ گئے۔بلی تھی کہ ہر دفعہ ان سے گھبرا کر ادھر اُدھر بھاگ جاتی تھی اور یوں کچھ لمحات کیلئے وہ اس سے نجات حاصل کرلیتے لیکن ہمیشہ کی مانند وہ پھر آدھمکتی ۔آخر کار پروفیسر صاحب نے ایک دن اسے بوری میں بند کر کے دور دراز کے علاقے میں پہنچانے کی ٹھانی۔اس کے پنجوں سے بالکل خائف نہ ہوئے کیونکہ قدکاٹھ اور قوت میں واضح فرق تھا ۔اور پہلے بھی وہ ان کی معمولی سی حرکت پر دم دبا کر بھا گ جایا کرتی تھی ۔کبھی روشندان سے کبھی دروازے سے ۔مگر اب کی بار پروفیسر صاحب نے کمرے سے باہر جانے کے تمام راستے مسدود کردیئے۔اور بلی کو نحیف مخلوق سمجھ کر اس کی جانب لپکے ‘مگر بلی یہ جا اور وہ جا۔مگر بلی کی کافی دوڑ دھوپ کے بعد جب اسے بھاگ جانے کی کوئی راہ نہ ملی تو اس وہ پوری طاقت کے ساتھ پروفیسر صاحب کی گردن پر جھپٹی ‘لیکن خوش قسمتی سے ان کے ہاتھ میں کتاب موجود تھی جس کو مزاحمت کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود وہ زخمی ہوگئے۔

یقین کیجئے جب ان راجے خانوں کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا تو یہ خود کشی کر لیتے ہیں ‘خدا کے قانون کو توڑتے ہیں بہت سے انفرادی طور پر قانون شکن کا روپ دھار لیتے ہیں ۔لیکن ہمارے امراءکو اس دن سے بچنا چاہیئے جب یہ راجے تمام راہیں مسدود ہونے کے بعد خدا کے قانون کے بجائے انسان کے قانون کے درپے ہو جاویں گے‘ جس دن یہ سب راجے مل کر ان کی گردن پر جھپٹیں گے اور اور ان کو بچانے والا اقتداربھی ان کا ساتھ نہ دے پائے گا۔کیونکہ فارسی مصرعہ کا ترجمہ ہے کہ جب انسان کا تنگ آنا جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اور جنگ سے پہلے کا وقت مہلت ہوتا ہے ۔مہلت خدا سب کو دیتا ہے لیکن ہر مہلت کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے خدا کرے مہلت کے ختم ہونے سے پہلے ہمارے اور ہمارے ارباب اختیار کے اعمال درست ہو جائیں۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188501 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.