دل چسپ اور ڈرامائی عوامی
اجتماعات کی پاکستانی سیاست میں واپسی: کیا یہ چائے کی پیالی میں اٹھائے
جانے والا ایک طوفان ہے
لاہور 1940 کے بعد پھر ایک نئی قرارداد ِ پاکستان کا محرّک اورمستقر بن رہا
ہے۔ تاہم قرارداد لاہور پاکستان کے وقت موجود مجمع برّصغیر قبل آزادی کے
مسلمانوں کی اجتماعی سوچ و فکر، بصیرت، اور رہنمائی کا نمائندہ تھا۔ حالیہ
زمانہ میں متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ نون، اور پھر تازہ ترین تحریک انصاف
کے اجتماعات اس قسم کے انقلابی عزائم کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس ملاحظہ کے
باوجود، یہ جلسے اس امر کی غمّازی کررہے ہیں کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کے
رہنما پاکستان کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ اور وہ اپنی اپنی ڈفلی
اپنا اپنا راگ، گا بجا کر، عوامی توجہّ اپنی جانب مبذول کرکے کوئی نہ کوئی
معنی خیز تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
تاہم، بد قسمتی سے تمام رہنما کسی نہ کسی طور پر کُل پاکستان مرکزی پلیٹ
فارم کے بجائے اپنی اپنی زمینی پناہ گاہوں اور حواریوں کے گھیرے میں رہ کر
مرکزی حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
1976 میں جب پیپلزپارٹی نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے سیاسی
میدانوں میں اکھاڑے سجادیے، اس وقت متحدہ اپوزیشن پلیٹ فارم کے جلسوں میں
عوام ایک بڑی تعداد میں شرکت کررہے تھے۔ اور آمرانہ اور جابرانہ طرزحکومت
کے خلاف عوامی ووٹ پڑگئے، جنہیں جعلی نتائج سے شکست دینے کی کوشش کی گئی،
اور اس کا ردّ عمل بڑے پیمانہ پر عوامی احتجاج، اور ایک اور طویل وتاریک
مارشل لاءدور کے آغاز کی صورت میں ہوا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا
موجودہ سیاسی رہنما تمام پاکستان میں اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ سکیں گے،
یا پھر یہ عمران خان جیسے نئے نویلے رہنما کی جانب سے ایک کھوکھلا چیلنج
ثابت ہوگا! جلسوں میں حاضرین کی تعداد سے زیادہ یہ فیصلہ آئندہ انتخابات
کے بیلٹ بکسوں میں موجود، صحیح یا غلط ، ووٹوں کی گنتی پر ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت، اور اس کی ایک ناقابل یقین حلیف،
پنجاب میں قلابازی کھاجانے والی، مسلم لیگ ق، کے چیدہ چیدہ لیڈروں کے کردار
کا ریکارڈ ، جعلی ڈگریوں، ان کی کھوکھلی بصیرت اورسطحی علم، مالی
بدعنوانیوں، وغیرہ کی وجہ سے نہ صرف ایک عام پاکستانی بلکہ غیرملکی رہنما
حضرات کے نزدیک بھی قابل احترام نہیں سمجھی جاسکتی۔ اسی لیے پڑھے لکھے
پاکستانی کراچی میں منعقد کیے جانے والے متحدہ، پیپلزپارٹی، اور قلابازی
لیگ کے مشترکہ قوت کے مظاہرے دیکھ کر حیران ہیں۔ ان مظاہروں سے، اور
پیپلزپارٹی کے چند کارکنوں کے حالیہ کرداروں سے پاکستانی سیاست میں مرکزیت
کمزور ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ خود وزیراعظم بھی اپنے آبائی علاقہ میں
ایک نئے صوبہ، اور اس میں مستقبل میں اپنی خاندانی سیاست کی مضبوطی کے خواب
دیکھ رہے ہیں۔ یہ تقسیم نیک نیتی پر مبنی نہیں، اور دشمنانِ پاکستان کے لیے
شادیانے بجنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں سابقہ نیم فوجی حکومت نے سابق جنرل و صدر، پرویز مشرف، کے دور
میں برقی میڈیا میں جو انقلاب برپا کیا، اس نے خود اس کے لیے ایک وقت شدید
مشکلات پیداکیں، مگر عوام کو باشعوربنادیا۔ میڈیا میں سازوآواز سے مزین
تصاویر نے عوام کی توجہ اپنے ساتھ کچھ اس طرح چسپاں کرلی ہے کہ اب تمام
سیاسی افراد بھی اس کے طریقہءکار کی نقّالی کرنے پر مجبورہیں۔ اداکاروں کی
طرح جسمانی حرکات و سکنات، مکالموں کی پرزوراور ریہرسل پرمبنی
ادائیگی،روشنیاں ساز و آواز، اشعار وگیتوں کا بے سرگانا، پروفیشنل
موسیقاروں کی دلآویز ادائیگی، یہ سب آج ان سیاسی جلسوں کا لازمی جزوبن چکے
ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بھی شعراءکرام اپنی نظموں سے آزادی کے جذبوں کو
مہمیز دیا کرتے تھے، اور لوگ ان پر سر دھنتے تھے۔ تاہم آج کی موسیقی اور
گیت وقتی تاءثر تو چھوڑ سکتے ہیں، مگر وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔
متحدہ قومی موومنٹ کا لاہوری جلسہ متوقع کامیابی حاصل نہ کرسکا تھا۔ تاہم
ایسے مواقع متحدہ اپنے قیام کے اوائل سے دیکھ چکی ہے، اور وہ جہد مسلسل پر
یقین رکھتے ہوئے بعد میں زیریں سندھ کی حدتک کامیاب رہی ہے، اور وہ پاکستان
کے دیگر حصّوں میں بھی مشکلات کے باوجود اپنی سیاسی جدّوجہد جاری رکھے گی۔
مسلم لیگ نون، جس کا نام ہی ایک قابل بحث امر ہے اور پاکستان کے ایک
مشہورومقبول ادیب کمال احمد رضوی کے طنزومزاح سے بھرپور ڈراموں الف نون کی
بوجوہ یاد دلاتا ہے، اپنے جلسہ میں تنہاپرواز کرنے میں مصروف رہی، اور اسے
بھی کامیابی کے اعلیٰ درجہ پر فائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری جانب تحریک
انصاف کا 30 اکتوبر2011 کا جلسہ اس کی اپنی سیاسی مقبولیت اور شرکاءکی
تعداد کے معیار سے کامیاب کہا جاسکتا ہے۔ اس جلسہ میں مقبول نوجوان فن
کاروں کی موجودگی اور ادائیگی نے اسے ایک دل چسپ میڈیا ڈرامہ بنادیا۔ اور
شرکاءکی دل چسپی آخرتک برقراررہی۔ اس ڈرامہ کے مصنّف، ہدایت کار، اور
اداکاروں نے مجموعی طور پر ایک پُراثر پرفارمنس دی۔
تحریک انصاف کے رہنما، عمران خان، ایک ایسا ایجنڈا پاکستانی عوام کے سامنے
پیش کررہے ہیں، جو نوجوان نسل کے لیے ایک دل چسپ پیغام رکھتاہے۔ مگر وہ
بزرگ پاکستانی جنہوں نے پاکستان کی سیاسی ہل چل کو ایک طویل زمانہ سے دیکھا
ہے، یا اس کا مطالعہ کیا ہے، وہ یہ جان چکے ہیں کہ ایک ایسا ایجنڈا پیش
کرنا جو اس سے پہلے، بطور مثال، ایوّب خان (دوست، آقانہیں)، ذوالفقار علی
بھُٹّو (عوامی اور مزدوروں کی بیداری)، پرویز مشرف (ایک بنیادی عوامی
بلدیاتی نظام اور پانی کے ذخیروں اور بجلی کے ذرائع اور معدنیات کا
استعمال) ، گیلانی /زرداری ( بلوچستان کی ترقی کا مالی پیکیج)، سنگاپور کے
سابق وزیر اعظم لی کوان یو کے اقدامات (غیرملکی قرضوں اور بھیک سے چھٹکارا)
وغیرہ سب آزمودہءکار نعرے ہیں۔ آج کا ایک نوجوان ان نعروں کو نیا اور
انقلابی سمجھ کر دھوکہ کھاسکتا ہے، یا پاکستان کے لیے منفی سوچ رکھنے والے
تھکے ہوئے جسم و ذہن بھی اسی قسم کا ایک سطحی عارضی تاءثر قائم کرسکتے ہیں
جیسا کہ کسی بھی دل چسپ فلم کو دیکھ کر سنیما ہال سے نکلتے ہوئے احساس
ہوتاہے۔ جب تک آپ گھر پہنچتے ہیں، یہ احساس کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
چنانچہ، ہمارے پیارے دوستوں، شہزاد رائے اور بلال مقصود اور فیصل کپاڈیہ کے
مقبول گیتوں کھڑارہ تو کھڑارہ، میں بھی دیکھوں گا، کے برعکس پاکستان ایسے
ہی چلتا رہے گا، کیونکہ آپ بھی ووٹ ڈالتے وقت اپنی برادری کے گھیرے سے نہ
نکلیں گے، اور کوئی بھی ایک سیاسی پارٹی ایسی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی جو
معاشرہ میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے۔ اگر صرف پاکستان کے
چند اہم اداروں (زیریں عدلیہ، پولیس، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے ، وغیرہ)
ہی میں صفائی آپریشن کیا جائے تو ہزاروں بے عمل اور بے عقل افراد بے روزگار
ہوجائیں گے، اور معاشرہ ایک نئی مصیبت سے دوچارہوجائے گا۔ کیا ہمارے برادری
، قبائلی، اور لسّانی معاشرہ میں کوئی صاف ستھرا امریکی شیرف جیسا غیرجانب
دار تھانہِ دار مقامی طور پر منتخب ہوسکتا ہے؟ اگر تحریکِ انصاف بھی برسرِ
اقتدار آگئی تو اپنے بظاہر انقلابی ایجنڈا کو عملی جامہ پہنانے کے لیے
پولیس وعدلیہ کے بجائے کیا آسمان سے فرشتے لاکرکام کرے گی !۔
ہر انتظامی انتخاب بھی کسی نہ کسی سیاسی پلیٹ فارم کا مرہون ِ منّت ہوتاہے،
جیسا کہ ہمارے حالیہ کامیاب بلدیاتی نظام نے اب تک ثابت کیا۔ انہوں نے
مقامی جڑیں ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کام ضرورکرڈالا۔
چنانچہ اگر آپ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو تحریک انصاف کی شکل میں کسی
انقلابی تبدیلی کی نوید سن رہے ہیں، کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں۔ تحریک
انصاف اس وقت بھی کل پاکستان پلیٹ فارم پر عمران خان کے علاوہ کوئی پرکشش
رہنما اور کارکنوں کا ہجوم نہیں رکھتی۔ ہاں شاید پاکستانی خفیہ قوتیں جو
موجودہ سیاسی سیٹ اپ سے تنگ آچکی ہیں، اپنی حمایت اور وزن خاموشی سے انصاف
کے پلڑے میں ڈال دیں۔ ہاں جاتے جاتے ہم یہ یاد دلاتے چلیں کہ امریکہ میں
مقیم ایک نوجوان لڑکی بھی اپنی آنکھوں میں اپنے مبینہ باپ سے ملنے اور اس
کے سائے میں رہنے کے خواب سجائے ہوئے ہے، اور وہ بھی ان ڈراموں کو دل چسپی
سے دیکھ رہی ہے۔ اور پاکستانی عوام تحریکِ انصاف کے رہنما کی تمام اولاد کو
بھی ایک کامیاب متحدخاندان اوراخلاقی قوت کے مظہر کے طور پران کے شانہ
بشانہ کھڑا دیکھنا ضرور چاہیں گے۔
تمام پاکستانی سیاسی پارٹیوں کا ایک امتحان یہ بھی ہے کہ وہ لاہوری طرز کے
جلسے، پشاور، کوئٹہ،ا ور کراچی میں بھی کردکھائیں۔ |