روشنی کا سفر (مختصر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم)

سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم — ایک ادبی و افسانوی انداز میں
عبداللہ سلمان، بنگلور

مکّہ کی وادیاں اپنے اندر ایک عجیب سی خاموشی سمیٹے بیٹھی تھیں۔ ریگزار پر بہار کی نرم ہوا بکھری ہوئی تھی، اور صدیوں سے منتظر دنیا کی آنکھیں ایک نور کے طلوع کی راہ تک رہی تھیں۔ کائنات کے ذرے ذرے پر گویا یہ پیغام لکھا جا چکا تھا کہ اب اندھیروں کا سفر ختم ہونے کو ہے۔ اور پھر وہ ساعت آپہنچی، جب بی بی آمنہ کے آغوش سے ایک یتیم بچہ دنیا میں آیا—محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)۔
جس وقت یہ لعلِ گرانقدر پیدا ہوا، فضا خوشبو سے معطر ہو گئی۔ کلیاں مسکرانے لگیں، اور فرشتے آسمانوں پر نغمہ سرا ہو گئے۔ دادا عبدالمطلب نے خوشی خوشی خانہءکعبہ کا طواف کیا اور اس کا نام “محمد” رکھا، وہ نام جس کی بازگشت صدیوں سے کتبِ آسمانی میں سنائی دے رہی تھی۔
بچپن کی پرورش:
یتیمی کی گود میں پلنے والا یہ بچہ عام نہ تھا۔ کبھی حلیمہ سعدیہ کی آغوش میں بکریوں کے پیچھے دوڑتا، کبھی کھلی ہوا میں کھیلتا۔ زمین کی سختی نے اس کے قدموں کو مضبوط کیا، اور تنہائیوں نے اس کے دل کو وسیع کر دیا۔ چھ سال کی عمر میں ماں کا سایہ بھی اٹھ گیا، آٹھ سال کی عمر میں دادا بھی رخصت ہو گئے، مگر یہ یتیم بچہ دراصل انسانیت کا سہارا بننے جا رہا تھا۔
پیدا ہوئے تو باپ کا سایہ اٹھادیا........گھٹنے چلے تو دادا عدم کو روانہ تھا
سایے پسند آئے نہ پروردگار کو ........بے سایہ کردیا گیا اس سایہ دار کو
جوانی کی پاکیزگی:
مکّہ کی بستی جہاں ہر طرف بت پرستی تھی، وہاں یہ نوجوان اپنی پاک دامنی اور صداقت سے پہچانا گیا۔ لوگ اسے ”امین“ اور ”صادق“ کہنے لگے۔ کسی کی امانت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس محفوظ ہوتی، کسی کا جھگڑا وہ سلجھاتے۔ ایک دن قریش نے کعبہ کی تعمیر کے دوران حجرِ اسود کی تنصیب پر جھگڑنا چاہا، تو سب نے کہا:”جس وقت سب سے پہلے آنے والا آئے گا، فیصلہ وہی کرے گا۔“
اور دیکھتے ہی دیکھتے، وہی نوجوان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)داخل ہوا۔ مسکراہٹ کے ساتھ چادر بچھائی، پتھر رکھا اور سب قبائل کو اس کا حصہ دیا۔ جھگڑا ختم ہو گیا، اور مکّہ ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن گیا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ و سراپا:
چاندنی رات تھی،چودھویں کا چاند نکلا ہوا،ہر سمت اجالا بکھرا ہوا،حضرت عائشہؓ کبھی چاند کو دیکھتیں،کبھی رخِ انور کو،اور پھر دل کی کیفیت زبان پر آئی:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان،خدا کی قسم!آپ چاند سے زیادہ حسین ہیں! ہاں!
چاند میں تو داغ ہیں،جھائیاں ہیں،مگر آپ کا چہرہ؟صاف و شفاف،جمال کی انتہا، حسن کی معراج!
زلیخا کی سہیلیاں اگر آپ کو دیکھ لیتیں، تو ہاتھ نہیں، دل کاٹ بیٹھتیں،یہ حسن تو وہ ہے جس پر نگاہیں بھی قربان جائیں۔
علامہ قرطبی نے کہا: یہ حسن اگر پورا ظاہر ہو جاتا، تو آنکھیں برداشت نہ کر پاتیں۔ اور حسانؓ نے کہا:
وَاَح±سَنُ مِن±کَ لَم تَرَ قَطُّ عَی±نِی........وَاَج±مَلُ مِن±کَ لَم± تَلِدِ النِّسَائُ
خُلِق±تَ مُبَرّاً مِّن± کُلِّ عَی±بٍ........کَاَنَّکَ قَد± خُلِق±تَ کَمَا تَشَائ
”آپ سے بہتر نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کوئی عورت ایسا جمیل پیدا کر سکی، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے،
یوں گویا جیسے آپ نے خود چاہا، ویسے ہی آپ کو بنایا گیا!"کیا شان ہے!کیا جمال ہے!شاہکارِ خدا!اے حبیبِ خدا!
یہ محبت صرف زبان کا گیت نہیں،یہ اطاعت کا تقاضا کرتی ہے،سنتوں کی روشنی چاہتی ہے،داڑھی، لباس، کھانے پینے کے آداب—
سب کچھ محبوب کی سنت کے مطابق! محبت کا دعویٰ سچا تبھی ہے،جب عاشق، محبوب جیسا ہو جائے۔
اور پھر—نظر ٹھہرتی ہے اس حلیہ مبارک پر:چہرہ چمکتا،رنگ سرخ و سفید،قد معتدل،آنکھیں بڑی، سرمگیں،دانت موتیوں کی لڑی جیسے،داڑھی گھنی،
اور جب مسکراتے تو،چودھویں کے چاند کی طرح،کائنات روشن ہو جاتی۔یقیناً—حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا—سب کچھ جمع ہو کر بھی ،آپ کے جمال کے سامنے کچھ نہیں۔صحابہؓ نے کہا:"ہم نے چاند کو دیکھا،اور آپ کے چہرے کو دیکھا،قسم ہے! آپ چاند سے زیادہ حسین تھے۔"
یہی عشق تھا—یہی محبت تھی—جو ان کے دلوں میں جاگزیں تھی۔
اے اللہ!ہمیں بھی وہی سچا عشق عطا فرما،وہی محبت جو اطاعت میں ڈھل جائے،اور ہمیں حضور کے غلاموں کی صف میں شامل فرما۔آمین!
نکاح اور گھریلو زندگی:
اس دوران حضرت خدیجہؓنے آپ کی صداقت کو دیکھا۔ آپ ان کے مال کے ساتھ تجارت پر گئے اور بے مثال دیانت داری دکھائی۔ واپسی پر اتنی برکت ہوئی کہ حضرت خدیجہؓ کا دل مطمئن ہو گیا۔ پھر نکاح ہوا، اور ایک پاکیزہ گھریلو زندگی کا آغاز۔ یہ شادی محبت، وفا اور سکون کی زندہ مثال تھی۔
نبوت کا آغاز:
چالیس برس کی عمر کو پہنچے تو نور کا دریا قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اترنے لگا۔ غارِ حرا کی تنہائیاں گواہ ہیں، جب پہلی وحی اتری:
اِقرا¿باسم ربک الذی خلق: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
یہ آواز پوری کائنات کے لیے ایک انقلاب کا اعلان تھی۔ اب اندھیرے چھٹنے لگے، اور نور کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔
دعوت اور مخالفت:
ابتدا میں دعوت خاموش تھی، مگر پھر حکم آیا کہ کھلم کھلا اعلان کرو۔ آپ نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر کہا:
”لوگو! اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے، کیا تم مان لو گے؟“سب نے کہا: ہاں، آپ کو ہم نے کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا۔
پھر فرمایا: تو جان لو، کہ میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے ڈراتا ہوں۔“
لیکن قریش کی دشمنی بھڑک اٹھی۔ پتھر برسائے گئے، راستے روکے گئے، طائف کی گلیوں میں لہولہان کیا گیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:”اے اللہ! ان کو ہدایت دے، یہ جانتے نہیں ہیں۔“
ہجرت کا سفر:
ظلم جب حد سے بڑھ گیا تو اللہ کا حکم آیا: ”ہجرت کرو۔“ مدینہ کی راہیں کھل گئیں۔ مگر ہجرت آسان نہ تھی۔ رات کی تاریکی میں دشمنوں کی تلواریں گھر کے گرد تھیں۔ مگر اللہ کے محبوب نکلے، اور حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر لٹا دیا۔ غارِ ثور کی گھاٹی میں دشمن قریب تک آئے، لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی کو تسلی دی: ”غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
مدینہ میں نئی زندگی:
مدینہ پہنچ کر اسلام کی روشنی تیزی سے پھیلنے لگی۔ مسجدِ نبوی بنی، اخوت کے رشتے جڑے، اور ایک نئی ریاست کی بنیاد پڑی جس کا دستور قرآن تھا۔ دشمنوں کے حملے بھی ہوئے، بدر و احد اور خندق کے معرکے بھی آئے، مگر ہر موقع پر نبی رحمت نے امت کو صبر، حوصلے اور ایمان کا سبق دیا۔
غزوات اور فتوحات:
مدینہ میں نئے دور کا آغاز ہوا۔ بدر میں قلیل لشکر نے کثیر دشمن کو شکست دی، احد میں صبر کا سبق ملا، خندق میں اتحاد کی طاقت سامنے آئی۔ پھر وہ دن آیا جب آپ نے فتح مکہ کے بعد اعلان کیا: ”آج کے دن کوئی بدلہ نہیں، سب آزاد ہیں۔“ یہ وہ جملہ تھا جس نے دشمنوں کو بھی دوست بنا دیا۔
تعلیمات اور انقلاب:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سکھایا کہ: غلام اور آقا برابر ہیں، عورت اور مرد دونوں قابلِ عزت ہیں۔ سب سے بڑا انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ نفع پہنچائے۔قرآن کی روشنی پھیلی، اور دنیا کی تہذیب بدل گئی۔
حجة الوداع میں آپ نے فرمایا:”میں نے تمہیں دین پہنچا دیا، کیا تم گواہی دیتے ہو؟سب نے کہا:جی ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔“
آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی: ”اللھم فاشھد” — اے اللہ! تو بھی گواہ رہ۔
مدینہ کی ہوائیں ایک دن اداس ہونے لگیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہوئی۔ آپ کی دعائیں اور نصیحتیں جاری رہیں، مگر بدن کمزور ہوتا گیا۔ آخر وہ گھڑی آئی جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آخری پیغام دیا:
”نماز کا خیال رکھنا، اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔“
اور پھر وہ ہستی، جو انسانیت کی سب سے بڑی رہنما تھی، اپنے رب سے جا ملی۔ مدینہ کے آسمان غم سے ڈھک گئے، اور زمین اشکوں سے تر ہو گئی۔مگر یہ روشنی بجھی نہیں۔ یہ چراغ آج بھی جل رہا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت آج بھی ہر دل کے لیے رہنما ہے۔ اُن کا راستہ ہر اندھیرے میں اجالا ہے، اوراُن کی محبت ہر غلامِ محمد کے دل کا سکون ہے۔
یقیناً رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی انسانیت کے لیے سب سے بڑی روشنی ہے۔ آج اگر ہم واقعی ان کی یاد منانا چاہتے ہیں تو صرف نعت خوانی یا جشن نہیں، بلکہ خدمتِ انسانیت، تعلیم، اور عدل و انصاف کے قیام کی کوشش کریں۔ یہی اصل محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
منیر احمد جامی کیا خوب کہا ہے:
ہزار قوتِ تحریر صرف کی میں نے
وہ حسنِ ناز بیاں ہوسکا نہ لفظوں میں
٭٭٭

 

ABDULLAH SALMAN RIYAZ
About the Author: ABDULLAH SALMAN RIYAZ Read More Articles by ABDULLAH SALMAN RIYAZ: 2 Articles with 771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.