جب تک سزا جزا نہیں تب تک ہم ڈوبتے مرتے رہیں گے
(Muhammad waris, Usta Muhammad Balochistan)
|
التجا تحریر وارث دیناری جب تک سزا جزا نہیں تب تک ہم ڈوبتے مرتے رہیں گے
پاکستان میں کوئی سال ایسا نہیں گزرتا ہے جس میں ملک کے کسی حصے میں سیلاب سے لوگوں کو بھاری جانی مالی نقصان کا سامنا کرنا نہ پڑتا ہو ۔ ہر سال بارشوں سیلاب سے بھاری جانی مالی نقصان کے باوجود ہم اس سے سبق کیوں نہیں سیکھتے ہیں اس کی تدارک کیون نہیں کرتے ہیں اس کی وجہ حکومت کی بےحسی اور عوام کی بےبسی ۔بلکہ میں تو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ حکومت کی بد نیتی بد عنوانی عوام کی لاپرواہی بزدلی ہے ۔گزشتہ کئی سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اور کہاں کہاں سے پانی آ کر تباہی مچا کر چلی جاتی ہے اور پھر کس طرح متاثرین کی بحالی ریلیف کے نام پر ملکی وسائل سمیت عالمی برادری کی جانب سے دی گئی امداد کا جس بے دردی سے بندر بانٹ کی جاتی ہے اس لوٹ کھسوٹ کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ یہ کرپٹ مافیا تو باقاعدہ اس طرح کے قدرتی آفات کے انتظار میں رہتے ہیں۔ کب کوئی اس طرح کا معاملہ ہو تاکہ ان کو ریلیف کے نام پر کرپشن کرنے کا موقع ملے ۔یہ آفت یہ تباہی بربادی کچھ لوگوں کے لئے خوشحالی کا باعثِ ہیں جبکہ اکثریت کے لئے تباہی بربادی 2025 کے تباہ کن سیلاب میں۔جس طرح سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اور ان کے اہل کار سیلاب کی آمد کی نوید سنا رہے تھے سیلاب کی آمد کے لئے جس طرح پر عزم دیکھائی دے رہے تھے اس سے اس حقیقت کا پتا لگ جاتا ہے کہ وہ کیا چاہتے تھے ان کے کیا عزائم منصوبے تھے۔ یہ تو بس اللّہ تعالیٰ نے اپنا کرم وفضل کیا۔ سندھ بلوچستان کو عارضی طور پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھاجبکہ پنجاب خیبرپختونخوا میں بارشوں اور سیلاب سے جو تباہی ہوئی جو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جس طرح لاکھوں افراد بے گھر ہوئے بڑے پیمانے پر ان کے مال مویشی ہلاک فصلیں باغات تباہ ہوگئی ہیں۔اپنے ہم وطنوں کا اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان پر ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھ اشک بار ہے۔جبکہ حکومتی کارکردگی سے بھی سخت نالاں ہیں بارش اور دریا تو زندگی کی ضمانت ہیں یہی بارش سیلاب کا پانی زمین کو نئی زندگی عطا کرتے ہیں ۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ بارش یا دریا تباہی نہیں لاتے ۔اس تباہی وبربادی کے ہم خود زمہ دار ہیں قدرتی آفات کو روکنا کسی کی بس میں نہیں ہے البتہ بہتر حکمت عملی سے اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے ۔پاکستان میں قدرتی آفت زلزلے کی صورت میں 2005کو ہم نے دیکھا باقی یہ جتنے بھی سیلاب ائے ہیں چاہیے موسلادھار بارشوں سے اربن فلڈ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے یہ سب نا اہلی اور بدنیتی کاہی نتیجہ ہے کاش کہ اس اس طرح کی نا اہلی بد نیتی کے مرتکب افراد کا تعین کرکے زمہ داروں کو سزا دی جاتی تو ہم ہر سال بھاری جانی مالی نقصان سے بچ جاتے دنیا سے بھیک مانگنے پر مجبور نہیں ہوتے۔الحمداللہ سندھ بلوچستان اس سال سیلاب سے محفوظ رہے اور غیر معمولی بارشیں بھی نہیں ہوئی ہیں اس کے باوجود حکومت کی کارکردگی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں پر کتنا معیاری کام کیا گیا سب کوبارشوں نے دیکھا دیا کہ چند گھنٹوں میں کس طرح سڑکیں بیٹھ گئی پلیں بہہ گئے گلیاں تلاب کا منظر پیش کرنے لگے آج یہ سڑکیں گٹر نالے خود حکومت کی کارکردگی بیان کررہی ہیں۔اخر یہ سڑکیں کیوں نہ بیٹھیں پلیں کیوں نہ بہہ جائیں عمارتیں لمحوں میں مٹی کا ڈھیر کیوں نہ بن جائیں نہروں اور کینالوں میں شگاف کیوں نہ پڑیں حفاظتی بند اور پشتے کیوں نہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں جب بھل صفائی کے نام پر پیسے کرپشن کی نظر ہوں جب بہتے پانی میں چند گھنٹوں کے لیے کینالوں پر سے برائے نام مٹی نکال کر فوٹو سیشن کے بعد تمام پیسے کرپٹ مافیا ڈکار دیئے بغیر ہضم کر لے جب ایک سو کروڑ کے منصوبے پر محض چالیس پچاس کروڑ لگائے جائیں باقی پیسے مختلف قسم کے کمیشن کی مد میں چلی جائیں۔ جب جب ایک ایم پی اے اور ایم این اے سینیٹر سے لے کر میئر ٹاؤن چیرمین کونسلر بھی اپنے ترقیاتی بجٹ کو اجتماعی مفادات سے ہٹ کر اپنی ہی پسند کے منصوبوں پر اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے ساتھ ٹھیکیدار بھی اپنا آدمی یا خود کرنے لگ جائیں اور جب کرپٹ رشوت خور آفیسر کام کا معیار چیک کئے بغیر بلکہ کام دیکھے بغیر پیسے جاری کرے گا اوپن ٹینڈر کرنے کے بجائے رینگ سسٹم کا رواج ہو تو یہی مندرجہ بالا صورت حال ہوگا۔یہ تو کرپٹ اہلکاروں کی کچھ کارستانیاںوں کا ذکر تھا۔اپنی تباہی بربادی میں عام عوام کا بھی حصہ کچھ کم نہیں میں نے دیکھا کہ اکثر اربن ایریاز میں لوگ مکانات دوکانیں بنواتے وقت کسی طرح بھی بلڈنگ کوڈ کو فالو نہیں کرتے ہیں گلی اور سڑک پر ناجائز تجاوزات قائم کرلیتے ہیں صرف ایک کلومیٹر سڑک یا گلی پر آپ کو درجنوں دوکانیں اور مکان نظر آئیں گے کوئی سڑک سے دو فٹ اونچا تو کوئی پانچ فٹ کہیں پر آپ کو دس دوکانیں یا مکانات ایک ہی لیول پر نہیں ملتے ہیں بس جس کا جس طرح دل کرے وہ تعمیرات کرنے تجاوزات کرنے میں آزاد ہے۔انھیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے نہ سرکار میں دم ہے ہے اور نہ ہی اہل علاقہ میں جرت ۔ کوئی کسی سے پوچھنے کی جسارت بھی کر سکتا ہے صرف اس وجہ سے میں کیوں کسی کی ناراضگی مول لوں ۔اسی طرح گلیوں نالیوں اور گٹر لائنوں میں لوگ اپنے گھروں دکانوں کا کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں کیونکہ روکنے والا جب کوئی نہیں ہے نہ گورنمنٹ اور نہ ہی پبلک اس کا نتیجہ پھر اربن فلڈ کی صورتحال میں سب کو تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح بعض علاقوں میں لوگ آبی گذرگاہوں کے اندر تعمیرات کرکے وہی پر رہائش اختیار کرتے ہیں جبکہ معلوم بھی ہے کہ گزشتہ سال یہی سے سیلاب تباہی مچاتے ہوئے گذرا تھا لیکن پھر بھی باز نہیں آتے ہیں اور ہر سال خود تو برباد ہوتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی بربادی کا باعث بنتے ہیں آخر اس طرح کب تک چلتا رہے گا کب تک اپنی نا اہلی اور کرپشن کو چھپانے ہوئے بارش رحمت ہے اس کو زحمت قرار دے کر اپنی گناہوں کا نتیجہ کہتے رہیں گے بیشک بادلوں کا برسنا ہواؤں کا چلنا ان کا رخ بدلنا موسموں کا تغیر ہونا اب وہوا کا فرق یہ سب کچھ مالک کائنات کے وضع کردہ نظام کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں تاہم اللّہ نے انسان کو اس کرہ ارض پر یونہی بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ علم و دانش عقل و شعور دے کر کائنات کو مسخر کرنے کے کی صلاحیت عطا کرکے بھیجا ہے جو اپنی تدبیر حکمت عملی سے طوفانوں زلزلوں کا مقابلہ کرکے ان کے نقصانات کو کم سے کم کرسکتے ہیں جس کی کئی مثالیں ہیں نیوزی لینڈ اور جاپان میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں لیکن اج انھوں نے اس طرح اپنی عمارتیں تعمیر کی ہیں کہ زلزلوں سے کم سے کم جانی و مالی نقصان ہوتا ہے دنیا کے کئی ممالک کے بڑے اور گنجان ابادی والے شہر دریاؤں کے کنارے واقع ہیں مجال ہے کہ کسی طوفانی بارش سیلاب کے نتیجے میں اس شہر میں آباد لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہوا ہو پاکستان میں اس طرح کے اقدامات تدابیریں کب اختیار کی جائیں گی؟ جب تک زمہ داروں کا تعین کرکے ان کو کڑی سزا نہیں دی جاتی۔ہم تب تک ہم ڈوبتے مرتے رہیں |
|