پاکستان اور مذہبی آزادی کی حقیقت
(Waseem Akram, Islamabad)
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کا پاکستان پر بے بنیاد الزام اور پاکستان میں مذہبی آزادی مغربی ممالک سے زیادہ بھی ہے اور مثبت بھی۔ |
|
پاکستان ایک آزاد ، خودمختار اسلامی ریاست ہے جس نے اپنے قیام سے اب تک شہریوں کے نہ صرف حقوق کا تحفظ کیا ہے بلکہ تمام شہریوں اور بالخصوص اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی ہے اور ان کی مذہبی و معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کا تحفظ یقینی بنایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ادارے ہوں ، مقننہ ہو یا عدالتی پیش رفت ، ہر جگہ اقلیتوں اور مذہبی آزادی کے اصولوں کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔تاہم کچھ شر پسند عناصر ملکی ترقی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا حالیہ روز افزوں وقار دیکھ کر بغض و حسد کی آگ میں جل کر سازشوں کے جال بننے میں مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کبھی دہشت گردی کی آڑ میں تو کبھی کوئی من گھڑت موضوع بنا کر پاکستان کا تشخص پامال کرنے کی ناککام کوششوں میں مگن ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF)نے حال ہی میں رپورٹ پیش کی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان منظم اندا زمیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرتاہے تاہم اسے دوبارہ خصوصی تشویش والا ملک (CPC) قراردینے کی سفارش کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں مختلف دعوے اور الزامات پیش کئے گئے ہیں جن میں توہین مذہب کے قوانین کا مبینہ غلط استعمال ، احمدیہ کمیونٹی پر حملے، عیسائیوں اور ہندوؤں کو ہراساں کرنے کے واقعات ،جبری تبدیلیء مذہب اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی کو امتیازی رنگ دینا شامل ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 2024 اور 2025 کے دوران 450 سے زائد جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے اور اس وقت 750 افراد جیلوں میں قید ہیں، جن میں یوٹیوبر رجب بٹ بھی شامل ہے۔ تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے ان مقدمات میں بارہا تحقیقات کے احکامات دیے اور کئی بے گناہ افراد کو بری کیا۔ یہ عمل پاکستان کے اندر موجود احتساب اور اصلاحات کے عمل کا ثبوت ہے جسے رپورٹ نے یکسر نظرانداز کر دیا۔ امریکی کمیشن کی اس رپورٹ کے پیش نظر یہ امر قابل غور ہے کہ مذہبی آزادی کے مسائل پاکستان تک محدود نہیں ہیں، مغربی معاشرے، خصوصاً امریکہ، خود بھی منظم عدم برداشت، نسل پرستی، نفرت انگیز جرائم اور مذہبی بنیادوں پر تشدد جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ وہ پہلو ہیں جنہیں(USCIRF) رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا ۔ اگر پیمانہ مساوی ہو تو امریکہ سمیت یورپی ممالک کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم، مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں، ہجومی تشدد اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین اور دہشت گردی کھلے عام جاری ہیں۔خود USCIRF نے تین بار بھارت کو CPC قرار دینے کی سفارش کی لیکن امریکہ نے کبھی اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔۔ اسی طرح اسرائیل مسلسل فلسطینیوں کی مذہبی آزادی سلب کر رہا ہے، مساجد کو مسمار کرتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کو روکتا ہے،مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔توپھر سوال یہ ہے کہ پاکستان کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں کئی مثبت قانونی اور سماجی اقدامات کیے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا انصاف کے منافی ہے۔ توہینِ مذہب کے مقدمات میں متعدد بریتیں، عدالتی کارروائیاں اور بچپن کی شادی کی روک تھام کے لئے نئے قوانین کا نفاذ، ایسے اقدامات ہیں جو پاکستان کے سنجیدہ اور انسان دوست عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔لیکن افسوس کہ امریکی کمیشن کی رپورٹ نے ان حقائق کو شامل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ دوسری جانب افغان پناہ گزینوں کی واپسی کو رپورٹ میں امتیازی رنگ دیا گیا ، حالانکہ یہ ایک خودمختار امیگریشن کا معاملہ ہے۔دنیا کے تقریباًتمام مغربی ممالک بڑے پیمانے پر بے دخلیاں کر رہے ہیں۔اگر وہاں یہ عمل جائز ہے تو پاکستان میں اسے امتیازی رنگ کیوں دیا جا رہا ہے۔ یہ رویہ کھلی منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟اقوام عالم جانتی ہیں کہ سرزمین پاکستان کو اس وقت دہشت گردی اور بیرونی دشمن عناصر کی مذموم سازشوں کا سامنا ہے اور بھارت افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر کے پاکستان کے امن و استحکام اور سلامتی کے در پے ہے، جبکہ حالیہ سکیورٹی آپریشنز کے دوران ہلاک ہونے والے بیشتر دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے تھا تاہم بلوچستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں بھی بھارتی تنظیم را کے ملوث ہونے کے مصدقہ ثبوت ملے ہیں ۔ چنانچہ پاکستان یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی خود مختاری اور قومی امن و امان کی بقا کے لئے بیرونی انخلاء کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں صورتحال کنٹرول کی جا سکے۔ لہذا افغان پناہ گزینوں کے انخلاء کا فیصلہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔نہ کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی آزادی جیسے حساس معاملے کو جغرافیائی سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب مخصوص ممالک کو چن کر نشانہ بنایا جائے اور دوسروں کو استثنا دیا جائے تو ان رپورٹس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کو بدنام کرنے کی یہ روش نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ عالمی سطح پر مذہبی آزاددی کے حقیقی تصور کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک جو اس وقت پوری دنیا میں انسانیت کش عزائم میں ملوث ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں کھلے عام سرگرم عمل ہیں، انہیں چھوڑ کر پاکستان، جو ایک طویل عرصے سے اپنی ہی زمین پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اسے نشانہ بنانا ، ایک غیر منصفانہ حکمت عملی ہے۔ تاہم پاکستان کو اپنی اصلاحات کے عمل کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، لیکن مغربی دنیا اور خاص طور پر امریکہ کو بھی دوہرے معیار سے باز آنا ہوگا۔ اگر مقصد واقعی مذہبی آزادی کا تحفظ ہے تو اس پر سب کے لیے یکساں اصول لاگو ہونے چاہیئں ۔ بصورتِ دیگر یہ رپورٹس صرف سیاسی دباؤ کا آلہ سمجھی جائیں گی اور ان کی ساکھ مزید مشکوک ہوتی جائے گی۔ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے جس نے دہشت گردی، انتہا پسندی اور بیرونی دباؤ کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارا ملک مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ابتداء سے آج تک عملی اقدامات کر رہا ہے۔ ہم کسی بیرونی دباؤ یا جانبدار رپورٹ کے سامنے جھکنے والے نہیں۔ پاکستان کے عوام اور ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں اپنی خامیوں کو خود دور کرنا ہے لیکن کسی کو یہ حق حا صل نہیں کہ وہ ہمیں اپنے سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات کی خاطر نشانہ بنائے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی ادارے اور مغربی ممالک انصاف کے ایک ہی پیمانے پر فیصلے کریں—ورنہ ان کے بیانیے کی ساکھ دنیا کی نظروں میں مزید گرتی جائے گی۔ پاکستان ہمیشہ اپنے عوام اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ڈٹ کر کھڑا رہے گا۔ |
|