اگلی صبح اب عرفات روانہ ہونے کا وقت تھا۔
پہلے عرفات کے میدان سے وہی پہاڑ دماغ میں آتا ہے جو کہ ہم نے ٹیلیویژن سکرینز پر دیکھ رکھا ہے۔اصل میں آپ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔میدان میں ہوتے ہیں مگر پہاڑ پر نہیں۔ بس نے ایک چوڑی سڑک پر اتار دیا تھا اب آگے سبز کارپٹ سے ڈھکی ہوئی چار سے چھ سیڑھیاں تھیں۔ ان پر بے حد احتیاط سے پیر رکھ کر نیچے اترنا تھا۔
اب رہنمائی میں آپ ایک اور giant size marquee میں پہنچ گئے تھے۔ اس کے اندر سو ,یا شاید اس سے بھی ذیادہ صوفہ کم بیڈز تھے۔ میں نے بھاگ کر کونے والا بیڈ سنبھالا۔ اور کھانے میں دال روٹی سرو کی گئی تھی۔ دوپہر میں بیف بریانی سرو کی گئی تھی۔ رات آپ نے مزدلفہ میں گزارنی ہوتی ہے وہاں کھانے کو کچھ نہیں ملے گا اسلئے پیکٹس دے دیئے گئے تھے۔ پیکٹس میں مونگ پھلی انجیر کی مٹھائیاں بسکٹس پانی کی بوتل جوس اور مکھن ملائی سے کروسان تھے۔
عصر کے وقت سورج کی تپش میں کمی آگئی تھی۔ آج کے ہی دن مسجد نمرہ سے خطبہ دیا جاتا ہے۔ خیموں کے باہر جگہ جگہ لوگ گروہوں کی صورت میں کھڑے دعائیں مانگتے نظر آرہے تھے۔ کیونکہ عرفات کے دن عصر سے مغرب کا وقت خاص طور پر دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ توبہ و استغفار، اللہ کی حمد و ثنا ، درور شریف، تلبیہ پڑھتے ہیں۔ دل میں جمع دعائیں آںکھوں کے راستے آنسو بن کر بہنے لگتی ہیں۔ آپ کو سب نے کتنی ہی دعائیں بتائی ہوں آپکواپنے پیاروں کے نام ہی مشکل سے یاد آتے ہیں اور آپ روتے چلے جاتے ہیں۔کیونکہ اللہ کے سامنے حآضر ہونے کا خوف اور شوق آپکو رلا دیتا ہے آپ خود کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھنے لگتے ہیں اور آپ خود کو خوش قسمت کیوں نہ سمجھیں آخرکو اس رب نے آپ کے دل میں اتنی نرمی ڈالی کہ آپ اس سے لاڈ سے خوف سے رحمت حاصل کرنے کے شوق سے دعا مانگ رہے ہیں اور وہ بھی معاف کرنے کو تیار ہے چاہے کوئی کتنا ہی خطا کار تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ نرم دل کے لوگ ہی ذیادہ روتے ہیں جو بہت نرم اور سچے دل کے ہوتے ہیں مگر میں نے عرفات میں دعائیں کرتے ہوئے اپنے آنسو صاف کر کے جب ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مجھے مڈل ایجڈ بوڑھا جوان ہر کوئی ہی روتا اور اللہ سے ایسے بات کرتا نظر آیا جیسے اسے آس پاس کی خبر نہیں۔
ہم نے مانگا تیرا کرم عطا کر تیری مہربانی جو رکھا ہمیشہ ہمارا بھرم تیری مہربانی
تیرے سامنے رونے کی توفیق ملی تیری مہربانی قبول فرما لے دعائیں ہماری تیری مہربانی
|