دُنیا کی ساری رونق تَنَوّع کے
دَم سے ہے۔ اگر یہ لفظ (تَنَوّع) آپ کو، اردو اخبارات کی انگریزی آمیز زبان
کی مہربانی سے، اجنبی سا محسوس ہو رہا ہے تو ہم آسانی کے لیے عرض کردیں کہ
دُنیا کی ساری رنگینی ”ورائٹی“ کے دَم سے ہے۔ آپ نے سُنا ہی ہوگا
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہم اِنسانوں کا بھی ہے۔ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر
ہم بیزاری محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بھی اِس مرحلے سے گزر رہے ہیں تو
کمر کَس لیجیے اور کراچی سے باہر جانے کی تیاری کیجیے۔ نہیں نہیں، ہم آپ کو
کلری یا ہالیجی جانے کا مشورہ نہیں دے رہے۔ وہ تو مشرق میں اور خاصے فاصلے
پر ہیں۔ جنوب کی طرف جانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا کیونکہ اُس طرف سَمَندر
ہے! ہم نہیں چاہتے کہ آپ ابھی سے سَمَندر میں اُتر جائیں! اور ویسے بھی
کراچی میں رہتے ہوئے آپ کو مزید کِسی سَمَندر میں اُترنے کی ضرورت نہیں۔
بلوچستان میں داخل ہونا اِس وقت انتہائی خطرناک ہے۔ اُس طرف اگر آپ کسی کام
سے گئے تو سمجھ لیجیے گئے کام سے! یعنی غروب ہونے سے بچنا ہے تو مغرب کی
سَمت بھی نہیں جانا۔ رہ گیا شُمال، بس اِسی سمت بڑھنے کی تیاری کیجیے۔ اور
زیادہ دور بھی نہیں جانا۔ بس کراچی سے باہر قدم رکھتے ہی آپ کا پکنک پوائنٹ
آ جائے گا۔ جی ہاں، ہم سہراب گوٹھ سے کچھ فاصلے پر لگائی جانے والی قربانی
کے یعنی اصلی جانوروں کی بڑی منڈی کا ذکر کر رہے ہیں!
جو لوگ سال بھر ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر وحشت زدہ ہوچکے ہوتے ہیں وہ
مویشی منڈی کا رُخ کرتے ہیں تاکہ ذرا الگ قسم کے جانوروں سے بھی رُو شناس
ہوں! آج کل جس قسم کے اِنسان مارکیٹ میں آئے ہوئے ہیں اُنہیں دیکھ کر مویشی
منڈی بہت غنیمت معلوم ہوتی ہے کہ چلیے، اعلیٰ نسل کے اِنسان دیکھنے کو نہیں
مِلتے تو نہ سہی، اعلیٰ نسل کے جانور تو ہم دیکھ پاتے ہیں!
مویشی منڈی میں قدم رکھتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کیسی
کیسی چیزیں خلق کی جاتی ہیں۔ خالق کائنات کے نام پر قربان کرنے کے لیے
خریدے جانے والے جانور تو خیر رب کی صَنّاعی کا شاہکار ہوتے ہی ہیں، اُنہیں
خریدنے والے بھی اپنے خالق کی قُدرت کا نمونہ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں!
اُن کے طور طریقے دیکھ کر مویشیوں کا بھی وقت اچھا کٹتا ہے! اِس کا مطلب یہ
ہوا کہ ایک منڈی میں ہمیں کئی منڈیاں دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے! شاید اِسی
کو انگریزی میں ”ون ونڈو آپریشن“ کہتے ہیں!
ہم ہر سال سہراب گوٹھ کے بعد شہر کے کنارے پر لگنے والی مویشی منڈی میں
جاتے ہیں اور اِس طرح جاتے ہیں کہ لوگ مویشیوں کو چھوڑ کر ہمیں دیکھنے لگتے
ہیں! اِس سے پہلے کہ آپ ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم کریں، عرض کردیں کہ
ہم مِرزا تنقید بیگ کو ساتھ لے جاتے ہیں! مِرزا کے ساتھ منڈی میں گھومنا
پھرنا صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی اچھی خاصی تفریح طبع کا
باعث ہوتا ہے! جس طرح شہنشاہِ غزل مہدی حسن ایک غزل کو ایک ہی دُھن میں دس
طریقوں سے گاسکتے ہیں، بالکل اُسی طرح مِرزا بھی جانوروں کو دَسیوں طریقوں
سے پَرکھ سکتے ہیں! وہ جس اِنہماک سے جانوروں کو دیکھتے ہیں اُسے محسوس
کرکے شاید جانور بھی محظوظ ہی ہوتے ہوں گے!
رواں ہفتے ہم مویشی منڈی گئے تو مِرزا کو بھی لے گئے۔ منڈی میں پہنچتے ہی
مِرزا اور منڈی کے جانور ایک نئی دنیا میں پہنچ گئے! مِرزا نے سَر گھمائے
بغیر چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولے ”بڑے شہروں میں تو اب مویشی منڈیاں
سجانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔“ ہم اُن کی طرف غور سے دیکھا تو اُن کی بات کی
صداقت پر یقین کرنے کی خواہش دِل میں انگڑائی لیتی ہوئی محسوس کی! جب مِرزا
نے خشمگیں نظروں سے ہمیں دیکھا تو ہمیں وہ بھینسا یاد آگیا جو گزشتہ سال
اِسی منڈی میں ہمیں دیکھ کر بدک سا گیا تھا اور ہم شرمندہ ہوگئے تھے۔ بعد
میں معلوم ہوا کہ اُس کی نظر ہم پر نہیں بلکہ ہماری اوٹ میں کھڑے ہوئے
مِرزا پر پڑی تھی!
مِرزا کا اِستدلال ہے کہ شہروں میں رہنے والے اب چونکہ بہت حد تک حیوانات
کی سطح پر آگئے ہیں لہٰذا مویشی منڈی کچھ غیر ضروری سی چیز معلوم ہوتی ہے!
ہم نے کہا بھائی صاحب! مویشیوں کو شہروں میں لانا اُن کی نفسیاتی صحت کے
لیے اچھا ہے تاکہ وہ ذبح ہونے سے قبل یہ دیکھ کر مطمئن ہو رہیں کہ اُن کی
زندگی گھاس پُھوس چرنے تک محدود رہی، کسی کا خون پینے یا گوشت میں دانت
گاڑنے کا گناہ تو سرزد نہیں ہوا!
حالات ہم سب کے گمان سے کہیں زیادہ بدل گئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
ہماری یہ سوچ پختہ ہوتی جارہی ہے کہ مویشیوں کو اِنسانوں کے درمیان لانا
اُن کی نفسیاتی ساخت کے لیے سخت مُضِر بھی ثابت ہوسکتا ہے! اچھا ہے کہ
قربانی کے جانور اِنسانوں کے درمیان چند دن ہی رہتے ہیں۔ اگر طویل قیام ہو
تو اُن میں بھی اِنسانوں والی خُو بُو پیدا ہو جائے اور اُنہیں ذبح کرنے کے
لیے کریک ڈاؤن کا اہتمام کرنا پڑے کہ ایسا کیے بغیر تو وہ یقیناً ہاتھ آنے
والے نہیں!
یہ بھی ہم پر رب کا ایک بڑا احسان ہے کہ قربانی کے لیے لائے جانے والے
مویشی بے زبان ہوتے ہیں۔ اگر کہیں وہ بولنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے تو
میڈیا والے اُن کی جان نہ چھوڑتے اور مویشیوں کی خریداری سے شروع ہوکر
ذبیحے پر ختم ہونے والا سلسلہ کئی ماہ جاری رہتا اور روز ایک نیا اسکوپ
میڈیا کی زینت بنتا! میڈیا کی سنگت بولنے کی صفت رکھنے والے جانوروں کی
ذہنی ساخت بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتی۔ پھر یہ بھی ہوا کرتا کہ
کسی جانور کو ذبح کی تیاری کرلی جاتی اور جب اُسے ڈھونڈنے نکلتے تو وہ کسی
چینل پر کرنٹ افیئرز کا دھواں دار پروگرام کر رہا ہوتا! اِس تشبیہ پر کسی
ٹی وی اینکر کو بُرا نہیں ماننا چاہیے کیونکہ بُرا ماننے کا حق بے زبانوں
کا ہے! |